لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
ان کے دل بے پرواہ ہوتے ہیں اور چپکے چپکے ظالم لوگ سرگوشی کرتے ہیں کہ یہ تم ہی جیسا ایک انسان (٣) ہی تو ہے، تو کیا تم لوگ سب کچھ دیکھتے ہوئے جادو کو قبول کرلینا چاہتے ہو۔
پیغمبر اسلام کی صداقت اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ ان کے سخت سے سخت معاند بھی اس عجیب و غریب کشش و تاثیر سے انکار نہیں کرسکتے تھے جو آپ کی شخصیت اور آپ کی تعلیم میں پائی جاتی تھی؟ اور چونکہ اعتراف حقیقت کے لیے تیار نہ تھے اس لیے مجبور ہوجاتے تھے کہ اسے جادو سے تعبیر کریں یہاں آیت (٣) میں فرمایا وہ پیغمبر اسلام کے پاس جانے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور کہتے ہیں تم ان کے پاس گئے اور جادو میں پھنسے وہاں تو جادو ہی جادو بھرا ہے۔ نیز وہ کہتے اس آدمی میں وحی و نبوت کی تو کوئی بات نظر نہیں آتی، کیونکہ یہ ہماری ہی طرح ایک آدمی ہے، پس جو کچھ اس کا اثر و نفوذ ہے جادو ہی کی وجہ سے ہے۔ سچائی کی سب سے بڑی شناخت یہ ہے کہ اسے سچائی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کچھ اور کہنا چاہو گے تو خواوہ کتنا ہی زور لگاؤ، بات بنے گی نہیں، بنے گی اس وقت جب سر جھکا دو دے کہ ہاں یہ سچائی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ نفس انسانی کی گمراہی و سرکشی پر حقیقت کا اعتراف ہمیشہ گراں گزرتا ہے۔ وہ بغیر لڑے کبھی ہتھیار نہیں رکھے گی۔ وہ مانے گی (کیونکہ سچائی بغیر منوائے رہ نہیں سکتی) مگر اسی وقت جب ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔ پیغمبر اسلام نے جب کلام حق کی منادی شروع کی تو قریش مکہ کا یہی حال ہوا۔ وہ سچائی دیکھ رہے تھے مگر اسے سچائی کہنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ کبھی کہتے یہ مجنون ہوگیا ہے، خواب و خیال کو وحی و نبوت سمجھ رہا ہے۔ پھر تاثیر و نفوذ دیکھتے تو کہتے یہ جادوگر ہے۔ پھر ہی بات بھی نہ بنتی تو کہتے، چالاک مفتری ہے۔ من گھڑت باتوں کو خدا کا پیغام بتلاتا ہے، پھر یہ بات بھی چل نہ سکتی تو کہتے کچھ نہیں یہ شاعری کا کرشمہ ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے اور یہ ساری باتیں آپس میں کہیں (ابن ہشام) قرآن نے پچھلی قوموں کی ہلاکتوں کی سرگزشتیں سنائی ہیں اور کہا ہے جب خدا کے رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے ظہور عذاب کی خبر دی، یہ سرگزشت سن کر قریش مکہ کہتے تھے ایسی ہی کوئی نشانی تم کیوں نہیں لا دکھتے؟