حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
اپنی نمازوں کی حفاظت کرو (332) اور بالخصوص بیچ والی نماز کی، اور اللہ کے حضور (333) پر سکون اور خشوع کے ساتھ کھڑے ہو
لیکن انسان جو خواہشوں کا بندہ اور عرض پرستیوں کی مخلوق ہے، کیونکر ایسی اخلاقی طاقت پیا کرسکتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی اخلاقی آزمائشوں میں پورا اترے؟ اس کی راہ میں صرف یہ ہے کہ خدا پرستی کی سچی روح پیدا کرے اور خدا پرستی کی سچی روح پیدا کرنے کا ذریعہ خدا کی عبادت ہے پس چاہیے کہ نماز کی محافظت کرو اور نماز میں کھڑے ہو کہ خشوع و خضوع میں ڈوبے ہوئے ہو ! خوف و جنگ کی حالت میں بھی نماز سے غفلت جائز نہیں جس طرح بھی بن پڑے نماز بروقت ادا کرلینی چاہیے صلوۃ وسطی کی ایک تفسیر تو یہ ہے جو ہم نے اختیار کی ہے دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہاں "وسطی " سے مقصود درمیانی چیز ہے اور اس لیے پانچ وقت کی نمازوں میں سے کسی خاص درمیانی نماز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جن مفسروں نے یہ تفسیر اختیار کی ہے وہ بخاری و مسلم کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جب جنگ احزاب میں عصر کا وقت نکل گیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ شغلونا عن الصلوۃ الوسطی حتی غابت الشمس۔ دشمنوں نے ہمیں صلوۃ وسطی سے باز رکھا یہاں تک سورج ڈوب گیا۔ پس صلوۃ وسطی سے مقصود عصر کی نماز ہے