قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی مرضی سے آپ کے وعدے کی خلاف ورزی (٣٢) نہیں کی، بلکہ قبطیوں کے زیورات کا ہم پر بوجھ لد گیا تھا تو ہم نے اسے (آگ میں) ڈال دیا، اسی طرح (سامری کے پاس جو زیورات تھے) اس نے ڈال دیا۔
آیت (٨٧) میں فقذفناھا تک لوگوں کا جواب ہے اس کے بعد فذلک سے قرآن واقعہ کی تفصیل بیان کرتا ہے، یہ لوگوں کے جواب کا ٹکڑا نہیں، صرف اتنی سی بات پر غور نہ کرنے کی وجہ سے مفسروں اور مترجموں نے اس مقام کا پورا مطلب خبط کردیا اور اسلوب کلام کی بھی ساری کل بگڑ گئی۔ اب ہم نے جس طرح ترجمہ کیا ہے اس پر غور کرو۔ مصری گردن اور سر پر سونے کے بھاری بھاری زیور پہنتے تھے، یہودیوں نے بھی وہ اختیار کرلیے تھے، اور جب نکلے تو پہنے ہوئے نکلے، انہی کو گلا کر سامری نے بچھڑا بنایا تھا۔ اب جب حضرت موسیٰ نے پرسش کی تو لوگوں نے اپنا بچاؤ یہ کہہ کر کرنا چاہا کہ ہمارا اور کچھ قصور نہیں، مصری زیوروں کا بڑا بوجھ ہمارے سروں پر پڑا تھا۔ ہم نے چاہا اسے پھینک دیں، ہمیں کیا معلوم تھا کہ سامری اس سے ایک عجیب و غریب چیز بنا کر ہمیں گمراہ کردے گا۔ قرآن کہتا ہے ہوا تھا ایسا ہی، انہوں نے اپنا سب زیور اتار دیا اور سامری نے اسے گلا کر بچھڑا بنا لیا۔