فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
پس اس سے نرم گفتگو کیجئے شاید کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا اس کے دل میں اللہ کا خوف آجائے۔
آیت (٤٤) انبیا کے طریق دعوت کی اصل الاصول ہے، تشریح اس کی پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے۔ یاد رہے جس فرعونن کی طرف اب حضرت موسیٰ جارہے ہیں، یہ وہ نہیں ہے جس کے محل میں ان کی پرورش ہوئی تھی، وہ مرچکا تھا اور دوسرا فرعون تخت نشین ہوچکا تھا۔ ادھر تو حضرت موسیٰ کو یہ حکم ہوا اور مصر کی طرف چلے، ادھر مصر میں ہارون کو اشارہ غیبی ہوا کہ موسیٰ کی جستجو میں نکلیں۔ چنانچہ راہ میں دونوں کی ملاقات ہوگئی۔ اب چونکہ دونوں یکجا ہوچکے تھے اس لیے وحی الہی نے دوسری متبہ مخاطب کیا تو دونوں کو کیا۔ پس آیت (٤٣) میں اذھبا کا خطاب پہلے واقعہ سے تعلق نہیں رکھتا، بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت موسیٰ نے تین چار لفظوں میں جو کچھ کہہ دیا کیا اس سے زیادہ دنیا کی کوئی زبان خدا کے بارے میں کچھ کہہ سکتی ہے؟ پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کو اس کا وجود بکشا اور پھر اس کی زندگی و بقا کے لیے جن جن باتوں کی ضرورت تھی ان سب کی راہ انہیں دکھا دی، یعنی ایسا وجدان، ایسے حواس، ایسی معنوی قوتیں دیدیں جو ان کی رہنمائی کرتی تھیں : (من نطفۃ خلقہ فقدرہ۔ ثم السبیل یسرہ) (الذی خلق فسوی۔ والذی قدر فھدی) مزید تشریح کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ۔