وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں (327) یہ ان کے لیے ہے جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہیں، اور باپ پر دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا کپڑا عرف عام کے مطابق واجب ہے، کوئی شخص بھی اس کی طاقت سے زیادہ (اللہ کی طرف سے) مکلف نہیں کیا جاتا، ماں کو اس کے بچے کی خاطر نقصان نہ پہنچایا جائے، اور نہ باپ کو اس کے بچے کی خاطر، (اگر باپ مرچکا ہے تو) اس کے ورثہ پر یہی ذمہ داری عائد ہوگی، اگر والدین آپس کی رضامندی اور باہمی مشورے سے بچے کا دود ھدو سال سے پہلے چھڑانا چاہیں، تو ان دونوں کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں، اور اگر تم اپنے بچوں کو (دایہ رکھ کر) دودھ پلوانا چاہو، تو بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ تم نے انہیں جو دینا طے کیا، خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرتے رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کرتوتوں کو دیکھ رہا ہے
جب عورت کو طلاق دے دی گئی اور اس نے عدت کا زمانہ پورا کرلیا تو پھر اسے اختیار ہے جس جس سے چاہے ٹھیک طریقے پر نکاح کرے۔ نہ تو اسے دوسرے نکاح سے روکنا چاہیے، نہ اس کی پسند کے خلاف اس پر زور ڈالنا چاہیے، نہ اس بات پر ناراض ہونا چاہیے۔ چونکہ اس بارے میں مردوں کی طرف سے زیادتی کا اندیشہ تھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا گیا اور فرمایا، اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس حکم کی نافرمانی سے بچو۔ طلاق کی صورت میں ایک نہایت اہم سوال چھوٹے بچوں کی پرورش کا تھا۔ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد دودھ پیتے بچوں کی پرورش کا تھا۔ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد دودھ پیتے بچوں کی پرورش کا انتظام کیا ہو؟ اس بارے میں طرح طرح کی خرابیوں کا اندیشہ تھا۔ پس ان کا سدباب کردیا گیا۔ بڑا محل نقصان پہنچنے کا ماں تھی کہ طلاق کی وجہ سے جدا ہوگئی تھی، اور محبت مادری کی وجہ سے مجبور تھی، کہ بچے کو دودھ پلائے۔ پس حکم دیا گیا کہ دودھ پلانے تک اس کا خرچ باپ کے ذمے ہے اور دودھ پلانے کی مدت دو برس ہے۔ ساتھ ہی اس بارے میں دو بنیادی قاعدے بھی واضح کردیے "نہ تو ماں کو اس کو بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو" اور "کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ خرچ کا بار نہیں"۔