إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا
بیشک جو لوگ ایمان لائے (٥٥) اور انہوں نے عمل صالح کیا، رحمن ان کی محبت سب کے دلوں میں جاگزیں کردے گا۔
آیت (٩٦) سے آخر تک سورت کی اختتامی موعظت ہے، اس میں دو باتوں کی خبر دی گئی ہے، ایک یہ کہ جو لوگ ایمان و عمل کی راہ اختیار کریں گے عنقریب خدا ان کے لیے انسانوں کے دل کھول دے گا اور وہ قوموں اور ملکوں کے محبوب ہوجائیں گے۔ (سیجعل لھم الرحمن ودا) دوسری یہ کہ حق کے مقابلہ ہٹ دھرمی کرنے والوں کو وہی نتیجہ پیش آنے والا ہے جو پچھلی تباہ شدہ جماعتوں کو پیش آچکا ہے کہ آن ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔ (ھل تحس منھم من احد او تسمع لھم رکزا) شرح ؛ سیجعل لھم الرحمن ودا): تاریخ کا داستاں سر اشہادت دیتا ہے کہ دنیا نے یہ دونوں باتیں چند برسوں کے اندر دیکھ لیں۔ ایمان و عمل کی اس دعوت نے مسلمانوں کا جو گروہ پیدا کردیا تھا انسانوں نے اسے قبول ہی نہیں کیا، بلکہ اس کا والہانہ استقبال کیا۔ وہ خوف و دہشت کی طاقت نہ تھے جس سے لوگ بھاگتے، نیکی و عدالت کا پیام تھے جس کی طرف لوگ دوڑتے تھے، قوموں نے انہیں بلاوے بھیجے، شہروں نے ان کے لیے پھاٹک کھولے، قلعوں نے اپنی کنجیاں آگے رکھ دیں اور وقت کی ساری مظلوم آبادیوں نے انہیں نجات دہندہ سمجھا۔ اجنا دین اور یرموک کے میدانوں میں بانطینی شہنشاہی ان سے لڑ رہی تھی لیکن شام کی آبادیاں محبت کے پیام بھیج رہی تھیں۔ بصری نے اپنے دروزے خود کھول دیے تھے، حمص کے باشندوں نے منتیں کی تھیں، طرابلس پہلے سے چشم برا تھا، صور کے پھاٹک بند ہی نہیں کیے گئے، اسی طرح جب انہوں نے مصر کا رخ کیا، تو خود مصر کے عیسائی ہی تھے جنہوں نے بڑھ کر ان کا استقبال کیا تھا، وہ جن جن راستوں سے گزرتے، سڑکوں کو درست اور پلوں کو تیار پاتے اور ہر طرح کی رسد فوج کے لیے مہیا ہوتی۔ باقی رہی دوسری بات تو محتاج تشریح نہیں، اس آیت کے نزول پر پورے پندرہ برس بھی نہیں گزرے تھے کہ دعوت قرآن کی تمام معاند قوتیں بے نام و نشان ہوچکی تھیں۔ حضرت مریم کی ابتدائی سرگزشت اور انجیل : حجرت مسیح اور مسیحیت کی نسبت بعض مہمات مباحث ہیں جن کے اشارات آئندہ سورتوں کی تشریحات میں ملیں گے۔ لیکن یہاں دو باتوں کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے : (الف) قرآن نے حضرت مسیح کے ظہور کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ دو جگہ کیا ہے۔ یہاں اور سورۃ آل عمران کی آیات (٦٣۔ ٣٥) میں، یہاں یہ ذکر حضرت زکریا کی دعا اور حضرت یحی کی پیدائش کے بیان سے شروع ہوا ہے، اور اناجیل اربعہ میں سی سینٹ لوقا کی انجیل ٹھیک ٹھیک اسی طرح یہ تذکرہ شروع کرتی ہے۔ لیکن سورۃ آل عمران میں یہ تذکرہ اس سے بھی پیشتر کے ایک واقعہ سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی حضرت مریم کی پیدائش اور ہیکل میں پرورش پانے کے واقعہ سے اور اس بارے میں چاروں انجیلیں خاموش ہیں۔ لیکن انیسویں صدی میں متروک اناجیل کا جو نسخہ ویٹیکان کے کتب خانہ سے برآمد ہوا اس نے حضرت مریم کی پیدائش کا یہ مفقود ٹکڑا مہیا کردیا ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ کم از کم چوتھی صدی عیسوی کے اوائل تک سرگزشت کا یہ ٹکڑا بھی اسی طرح الہامی یقین کیا جاتا تھا جس طرح بقیہ ٹکڑے یقین کیے جاتے ہیں۔ متروک اناجیل سے مقصود وہ اکیس سے زیادہ انجیلیں ہیں جو پہلی صدی سے لے کر چوتھی صدی کے اوائل تک عیسائیوں میں رائج اور معمول بہ تھیں، لیکن ٣٢٥ میں نائسیا کی کونسل نے چار منتخب کرلیں اور باقی متروک سمجھ لی گئیں، یہ انتخاب کسی تاریخی یا علمی اصل کی بنا پر نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک طرح کی فال دیکھی گئی تھی اور اس کا اشارہ فیصلہ کن تھا۔ قرآن اور حضرت مسیح کی پیدائش : (ب) قرآن کا جب ظہور ہوا تو حضرت مسیح کے بارے میں عیسائیوں کے عام بنیادی عقائد یہ تھے : (اولا) بغیر باپ کے پیدائش (ثانیا) مصلوب ہونے کے بعد پھر زندہ ہوجانا (ثالثا) الوہیت مسیح اور اقانیم ثلاثہ (رابعا) کفارہ اور یہ اعتقاد کہ اب نجات کی راہ عمل نہیں بلکہ مسیح کے کفارہ پر ایمان ہے۔ قرآن نے یہ واقعہ صلیب کا رد کیا اور کہا کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے بلکہ حقیقت حال لوگوں پر مشتبہ ہوگئی، الوہیت اور ابنیت کا بھی رد کیا اور کہا ایسا کہنا صریح کفر ہے۔ کفارہ کا بھی رد کیا اور جابجا اس پر زور دیا کہ نجات کی بنیاد ایمان باللہ اور عمل ہے نہ کہ مسیح کے کفارہ کا اعتقاد۔ اب قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بغیر باپ کے پیدائش کا اعتقاد بھی انہی عقائد کی طرح باطل تھا تو کیا ضروری نہ تھا کہ قرآن اسی صراحت کے ساتھ اس کا بھی رد کردیتا جس صراحت کے ساتھ دوسرے عقائد کا کیا ہے ؟ یقینا ضروری تھا۔ لیکن قرآن نے اس کے رد میں ایک حرف نہیں کہا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اگر اس پر نظر ڈالی جائے اور یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھی جائے کہ تزکرہ ایک ایسی پیدائش کا ہورہا ہے جو بغیر باپ کے تسلیم کرلی گئی ہے تو بغیر کسی تامل کے تسلیم کرلینا پڑتا ہے کہ بیان کی صاف روح یہی ہے کہ قرآن اس عام اعتقاد کا منکر نہیں۔ کم از کم اس کا رجحان اس کے خلاف نہیں جارہا۔ بلاشبہ قرآن میں یہ الفاظ کہیں نہیں ملتے کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے، یعنی کوئی ایسی مثبت تصریح نہیں جو اپنے منطوق میں ظاہر و قطعی ہو، اس کی جتنی آیتوں سے اس طرح کے اشارات نکل رہے ہیں اگر انہیں ایک دوسرے سے الگ کرلیا جائے تو ہر آیت کے مطلب کے لیے ایک دوسرا جامہ بھی تراش لیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مرحوم سید احمد خاں اور ڈاکٹر توفیق صدقی وغیرہما نے کوشش کی ہے۔ لیکن جب تمام بیان پر بہ حیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے اور محل کے قدرتی مقتضیات اور قرائن بھی پیش نظر ہوں تو بلاتامل تسلیم کرلینا پڑتا ہے کہ قرآن اس اعتقاد کے حق میں ہے اس سے منکر نہیں۔ پھر یہ حقیقت نظر رہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش کا معاملہ یہودیوں اور عیسائیوں میں بالکل متضاد سمتوں کا انتہائی گوشہ بن گیا تھا۔ یہودی ان کی پیدائش کو ناجائز تعلق کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ برخلاف اس کے عیسائی نہ صرف جائز بلکہ ایک ربانی معجزہ تصور کرتے تھے۔ قرآن کا فرض تھا کہ بحیثیت ایک ثالث کے دونوں میں فیصلہ کردے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کردیا، اس نے حضرت مریم کی پاکی کا اعلان کیا : (ان اللہ اصطفک وطھرک واصطفک علی نساء العالمین) یہودیوں کے الزام کو افترائے عظیم قرار دیا : (وبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانا عظیما) اور پیدائش مسیح کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک اسی طرح بیان کردی جس طرح انجیل میں بیان کی گئی ہے۔ (قالت انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا۔ قال کذلک قال ربک ھو علی ھین و لنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا) مریم نے فرشہ سے کہا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جب کہ میں مرد سے واقف نہیں؟ اس نے کہا ایسا ہی ہوگا روح القدس تجھ پر نازل ہوگی اور خدا کی قدرت تجھے اپنے سایہ میں لے لے گی۔ (لوقا : ٣٤: ١) ان اگر یہودیوں کی طرح عیسائیوں کا اعتقاد بھی قرآن کے نزدیک غلط تھا تو کیا ضروری نہ تھا کہ جس طرح اس نے یہودیوں کے الزام کا رد کیا اسی طرح عیسائیوں کے غلو کا بھی صاف صاف رد کردیتا؟ لیکن وہ اس کے رد میں ایک حرف نہیں کہتا بلکہ پیدائش کی جس روداد سے عیسائیوں نے یہ اعتقاد پیدا کیا تھا اسے حرف بہ حرف انجیل ہی کی طرح بیان کردیتا ہے۔ اگر اس کے نزدیک حقیقت نہ تو وہ تھی جو یہودیوں نے بنائی اور نہ وہ جو عیسائیوں نے سمجھی بلکہ ایک تیسری ہی بات تھی، یعنی مریم کا اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہونا، تو کیونکر اس کے لیے جائز ہوسکتا تھا کہ وہ سب کچھ کہہ دے لیکن اس بارے میں کچھ نہ کہے؟ وہ اس فریق کا صاف صاف رد کردے جو اس میں تفریط کر رہا ہے مگر اس کا رد نہ کرے جو افراط کا مرتکب ہورہا ہے؟ اور پھر اصل حقیقت پر اسی طرح پردہ پڑا رہنے دے جس طرح پہلے سے پڑا ہوا تھا اور اپنا یہ وصف یک قلم بھول جائے کہ وہ تمام پھچلے اختلافات کے لیے حکم اور تمام ظنون و شکوک کے لیے علم و حقیقت کا اعلان ہے؟ یہودیوں اور عیسائیوں کی نزاع صرف اسی باب میں نہیں ہوئی بلکہ حضرت مسیح کی ساری باتوں میں ہوئی، دونوں نے تفریط و افراط کی دو انتہائی جہتیں اختیار کرلی تھیں۔ یہودی انکار میں اتنے دور نکل گئے کہ انہیں شعبدہ بازار فریبی سمجھ لیا۔ عیسائی اعتقاد میں اتنے دور نکل گئے کہ انہیں خدا بنا لیا، قرآن دونوں کا ارد کرتا ہے اور کہتا ہے دونوں افراط و تفریط میں کھو گئے۔ پھر اگر پیدائش مسیح کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا تو کیا ضروری نہ تھا کہ جس طرح اس بارے میں دونوں کا رد کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ دونوں حقیقت سے محروم ہیں اسی طرح پیدائش کے بارے میں بھی یکساں طور پر دونوں کا رد کردیتا ہے اور صاف صاف بتلا دیتا کہ حقیقت سے دونوں محروم ہیں؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عیسائیوں نے ابنیت کے اعتقاد کے لیے جو سہارے ڈھونڈے تھے ان میں سب سے بڑا سہارا اسی پیدائش کے اچنبھے کا تھا، اسکندریہ کے فلسفہ آمیز اصنامی تخیل سیراپیز (Serapis) سے تثلیثی وحدت کی اصل لی گئی، اور ایزیز (Isis) کی جگہ حضرت مریم کو اور ہورس (Horus) کی حضرت مسیح کو دی گئی۔ پس اگر قراان کے نزدیک یہ اعتقاد بے اصل ہوتا تو وہ الوہیت وابنیت کا رد کرتے ہوئے سب سے پہلی ڑب اسی سہارے پر لگاتا۔ کیونکہ اس کے گرنے کے بعد اصنامی مسیحیت کی ساری عمارت خودبخود گر جاتی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے ایسا نہیں کیا، وہ صرف ایک لفظ کہہ کر کہ یوسف مسیح کا باپ تھا، سارا کارخانہ درہم برہم کر دے سکتا تھا، مگر وہ نہیں کہنا چاہتا، وہ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتا، اس کے بحث و احتجاج کا اسلوب ہر جگہ ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے اسے غیر معمولی پیدائش کے معاملہ سے تو انکار نہیں، لیکن وہ کہتا ہے اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ایک بندہ، خدا یا خدا کا بیٹا ہوجائے؟ ایک انسان جو تمام انسانوں کی طرح انسان تھا اور اپنی پیدائش کے لیے ماں کے پیٹ کا محتاج، بہرحال انسان ہی ہوگا۔ خدا یا خدا کا بیٹا کیوں مانا جائے؟ جو لوگ قرآن کو غیر معمولی پیدائش کا منکر ثابت کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے اپنی توجیہات کی ساری بنیاد اس مقدمہ پر رکھی ہے کہ رخصتی سے پہلے یوسف اور مریم میں زوجیت کا تعلق قائم ہوگیا تھا اور یہ اگرچہ شریعت موسوی کے خلاف نہ تھا لیکن وقت کے رواج کے خلاف ضرور تھا۔ اسی لیے لوگوں پر بچہ کی پیدائش گراں گزری۔ وہ اسے ناجائز حمل کا نتیجہ قرار دینے لگے۔ لیکن اول تو یہ محض ایک ظنی بنیاد ہے جس کے لیے تاریخی قرائن کا کوئی سہارا موجود نہیں، ثانیا خود یہودیوں کی قدیم روایات بالکل اس کے خلاف جارہی ہیں، انہوں نے حضرت مریم کو متہم کرتے ہوئے یوسف کا نام نہیں لیا تھا بلکہ پنتھرا ٹالی کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ بہرحال قرآن کو اس بارے میں منکر قرار دینا، شرح وتفسیر کا ایک ایسا اقدام ہے جس پر کسی طرح ایک دیانت دار شارح کا ضمیر مطمئن نہیں ہوسکتا۔ ہمیں قرآن کا مطالعہ نہ تو اس طرح کرنا چاہیے کہ اسے عجائب پرستیوں کی داستان بنانے کے خواہشمند ہوں۔ نہ عجائب پرستی کے الزام سے بچنے کے لیے اس درجہ مضطرب ہونا چاہیے کہ ہر بے محل سے بے محل توجیہ قبول کرلیں، قرآن عربی زبان کی ایک کتاب ہے اور دنیا کی تمام زبانوں کی طرح عربی الفاظ و تراکیب کے بھی ڈھلے ہوئے سانچے ہیں اور اسلوب بیان کے معین اور قطعی دلالات۔ پس چاہیے کہ علم و دیانت کے ساتھ اس کا مطالعہ کریں اور جو مطلب صاف صاف نکل رہا ہو اسے بغیر کسی جھجک کے قبول کرلیں، اگر ہم نے بہ تکلف ایک بات اس کے منہ میں رکھ دی جسے خود اس کی زبان قبول نہیں کر رہی تو گو ہم نے اپنے خیال میں ایک بات بنا لی ہو مگر فی الحقیقت بننے والی نہیں، یہاں علم و حقیقت کی بے لاگ عدالت موجود ہے، وہ ہر بناوٹ کو اصلیت سے جدا کرلے گی؟ باقی رہا یہ سوال کہ یہ اور اس طرح کے دوسرے معاملات کیونکر عقلا تسلیم کیے جاسکتے ہیں؟ تو یہ ایک اصولی مبحث ہے اور اس کا محل ترجمان القرآن نہیں، مقدمہ تفسیر ہے۔