إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا
آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب رحمن کے سامنے بندے کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔
اس کے بعد صرف ایک آیت کے اندر وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو اس عقیدے کے رد میں کہا جاسکتا ہے، یہ زیادہ سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن حجت ہے مگر منطقی طریقہ کی نہیں جو دلوں کو نہیں پکڑ سکتی، قرآنی طریقہ کی جو دل کے ایک ایک ریشہ میں اتر جاتی ہے : (ان کل من فی السموات والارض الا اتی الرحمن عبدا) تم خود تسلیم کرتے ہو کہ کائنات خلقت میں جو کوئی بھی ہے اس کے حضور بندہ ہی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ یعنی یہاں آقائی و معبودیت صرف خدا کے لیے ہے، باقی سبب کے لیے بندگی و نیاز مندی ہے اچھا اگر اس سے تمہیں انکار نہیں تو پھر مسیح کو بھی عبد ہونا چاہیے نہ کہ معبود۔ غلام ہونا چاہیے کہ آقا، محکوم ہونا چاہیے نہ کہ حکم فرما، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کے آگے تو سب بندے ہوں مگر مسیح بندہ نہ ہو؟