وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور مطلقہ عورتیں تین حیض (320) گذر جانے تک انتظار کریں گی، اور اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں، تو جو بچہ اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کردیا ہے اسے چھپانا ان کے لیے حلال نہیں، اور ان کے شوہر اگر اصلاح کی نیت رکھتے ہوں تو انہیں لوٹا لینے کے زیادہ حقدار ہیں اور بیویوں کے شوہروں پر عرف عام کے مطابق حقوق ہیں، جس طرح شوہروں کے ان پر حقوق ہیں اور مردوں کو عورتوں پر ایک گنا فوقیت حاصل ہے اور اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے
طلاق کے احکام اور اس میں ازدواجی زندگی کے لیے جن مضرتوں کا اندیشہ تھا یا عورتوں کی حق تلفی ہوسکتی تھی، اس کا انسداد : طلاق کی عدت کا ایک مناسب زمانہ مقرر کرکے، نکاح کی اہمیت، نسب کے تحفظ اور عورت کے نکاح ثانی کی سہولتوں کا انتظام کردیا گیا۔ یہ اصل واضح کردی گئی کہ اگر طلاق کے بعد شوہر رجوع کرنا چاہے تو وہی زیادہ حق دار ہے۔ کیونکہ شرعا مطلوب ملاپ ہے نہ کہ تفرقہ۔ جہاں تک عورتوں کے حقوق کا تعلق ہے دین حق کی اس اصل عظیم کا اعلان کہ جیسے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے حقوق عورتوں کے بھی مردوں پر ہیں