وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا
اور تم میں سے ہر شخص اس پر سے ضرور گزرے گا (٤٤) یہ آپ کے رب کا حتمی فیصلہ ہے۔
آیت (٧١) میں وان منکم الا واردھا کا خطاب تمام نوع انسانی سے نہیں ہے بلکہ ان منکرین حق سے ہے جن کا ذکر پہلے سے چلا اتا ہے اور جن کی نسبت پھچلی آیت میں فرمایا (الذین ھم اولی بھا صلیا) اور اسی لیے اس درجہ زور دے کر فرمایا (کان علی ربک حتما مقضیا) جزائے عمل کا قانون طے شدہ قانو ہے، کبھی ٹلنے والا نہیں۔ سورۃ مریم مکی عہد کی وسطی تنزیلات میں سے ہے اس وقت پیروان دعوت کمزور اور بے سروسمان تھے، منکروں کو ہر طرح کی دنیوی خوشیاں حاصل تھیں، پیغمبر اسلام مومنوں کے ساتھ بیٹھتے تو فقیروں اور بے نواؤں کی مجلس ہوتی، منکرین حق دار الندوہ میں جمع ہوتے تو سرداروں اور امیروں کا مجمع ہوتا، اس صورت حال کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ قرآن کی بشارتیں سن کر کفار ہنسی اڑاتے وہ کہتے بتلاؤ ہم دونوں میں سے کس کا مقام بلند ہے اور کس کی مجلس معزز؟