فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا
پھر ان کے بعد ان کی اولاد میں ایسے لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع (٣٧) کردیا اور خواہشات کی پیروی کی، تو وہ قیامت کے دن (جہنم کی وادی) غی میں جگہ پائیں گے۔
آیت (٥٩) میں پچھلوں کی گمراہی بیان کرتے ہوئے صرف (اضاعوا الصلوۃ واتبعوا الشھوات) فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز یعنی عبادت کا جوہر ایمان ہے، اس کی حقیقت گئی تو سب کچھ چلا گیا۔ دراصل ایک خدا پرست اور ایک غیر خدا پرست میں عملی امتیاز اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ پہلا کسی کی بندگی میں لگا رہتا اور کسی کو پکارتا رہتا ہے، دوسرا اس سے بے پروا رہتا ہے، اسی لی دعا اور عبادت ایمان باللہ کی اصلی علامت ہوئی اور اسی لیے تمام مذاہب نے اسی عمل پر مذہبی زندگی کی ساری عمارتیں اٹھائیں، جونہی یہ عمل بگڑا، مذہبی زندگی کی ساری بنیادیں ہل گئیں۔