إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا
بیشک جو لوگ ایمان (٦٣) لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا ان کی ضایفت کے لیے فردوس کے باغات ہوں گے۔
اصحاب کہف : مسیحی مذہب کے ابتدائی قرنوں میں متعدد واقعات ایسے گزرے ہیں کہ راسخ الاعتقاد عیسائیوں نے مخالفوں کے ظلم و وحشت سے عاجز آکر پہاڑوں کے غاروں میں پناہ لے لی اور آبادیوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہیں وفات پاگئے، اور ایک عرصہ کے بعد ان کی نعشیں بر آمد ہوئیں۔ چنانچہ ایک واقعہ خود روم کے اطراف میں گزرا تھا، ایک انطاکیہ کی طرف منسوب ہے، ایک افسس میں بیان کیا جاتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سورت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کہاں پیش آیا تھا؟ قرآن نے کہف کے ساتھ الرقیم کا لفظ بھی بولا ہے اور بعض ائمہ تابعین نے اس کا یہی مطلب سمجھا تھا کہ یہ ایک شہر کا نام ہے، لیکن چونکہ اس نام کا کوئی شہر عام طور پر مشہور نہ تھا، اس لیے اکثر مفسر اس طرف چلے گئے کہ یہاں رقیم کے معنی کتابت کے ہیں، یعنی ان کے غار پر کوئی کتبہ لگا دیا گیا تھا اس لیے کتبہ والے مشہور ہوگئے۔ الرقیم : لیکن اگر انہوں نے تورات کی طرف رجوع کیا ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ رقیم وہی لفظ ہے جسے تورات میں الرقیم کہا گیا ہے اور یہ فی الحقیقت ایک شہر کا نام تھا جو آگے چل کر پیڑا کے نام سے مشہور ہوا اور عرب اسے بطرا کہنے لگے۔ عالمگیر جنگ کے بعد آثار قدیمہ کی تحقیقات کو جو نئے نئے گوشے کھلے ہیں ان میں ایک پیٹرا بھی ہے اور اس کے انکشافات نے بحث و نظر کا ایک نیا میدان مہیا کردیا ہے۔ جزیرہ نمائے سینا اور خلیج عقبہ سے سیدھے شمال کی طرف بڑھیں، تو دو پہاڑی سلسلے متوازی شروع ہوجاتے ہیں اور سطح زمین بلندی کی طرف اٹھنے لگتی ہے۔ یہ علاقبہ نبطی قبائل کا علاقہ تھا اور اسی کی ایک پہاڑ سطح پر راقیم نامی شہر آباد تھا۔ دوسری صدی عیسوی میں جب رومیوں نے شام اور فلسطین کا الحاق کرلیا تو یہاں کے دوسرے شہروں کی طرف راقیم نے بھی ایک رومی نو آبادی کی حیثیت اختیار کرلی اور یہی زمانہ ہے جب پیٹرا کے نام سے اس کے عظیم الشان مندروں اور تھیٹروں کی شہرت دور دور تک پہنچی۔ ٦٤٠ ء میں جب مسلمانوں نے یہ علاقہ فتح کیا تو راقیم کا نام بہت کم زبانوں پر رہا تھا، یہ رومیوں کا پیٹرا اور عربوں کا بطرا تھا۔ جنگ کے بعد سے اس علاقہ کی ازسر نو اثری پیمائش کی جارہی ہے اور نئی نئی باتیں روشنی میں آرہی ہیں۔ ازاں جملہ اس علاقہ کے عجیب و غریب غار ہیں جو دور دور تک چلے گئے ہیں اور نہایت وسیع ہیں۔ نیز اپنی نوعیت میں ایسے واقع ہوئے ہیں کہ دن کی روشنی کسی طرح بھی ان کے اندر نہیں پہنچ سکتی۔ ایک غار ایسا بھی ملا ہے جس کے دہانے کے پاس قدیم عمارتوں کے آثار پائے جاتے ہیں اور بے شمار ستونوں کی کرسیاں شناخت کی گئی ہیں۔ خیال کیا گیا ہے کہ یہ کوئی معبد ہوگا جو یہاں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد قدرتی طور پر یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اصحاب کہف کا واقعہ اسی شہر میں پیش آیا تھا اور قرآن نے صاف صاف اس کا نام الرقیم بتلا دیا ہے۔ اور جب اس نام کا ایک شہر موجود تھا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ رقیم کے معنی میں تکلفات کیے جائیں اور بغیر کسی بنیاد کے اسے کتبہ پر محمول کیا جائے۔ علاوہ بریں دوسرے قرائن بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ قرآن نے جس طرح اس واقعہ کا ذکر کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی عرب میں شہرت تھی، لوگ اس بارے میں بحثیں کیا کرتے تھے، اور اسے ایک نہایت ہی عجیب بات تصور کرتے تھے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مشرکین عرب کے وسائل معلومات محدود تھے بہت کم امکان ہے کہ دور کی باتیں اب کے علم میں آئی ہوں۔ پس ضروری ہے کہ قرب و جوار ہی کی کوئی بات ہو اور ان لوگوں کی زبانی سنی جاسکے جن سے ہمیشہ عربوں کا ملنا جلنا رہتا ہو۔ ایسے لوگ کون ہوسکتے تھے؟ اگر اسے پیٹرا کا واقعہ قرار دیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ اول تو خود یہ مقام عرب سے قریب تھا، یعنی عرب کی سرحد سے ساٹھ ستر میل کے فاصلہ پر۔ ثانیا نبطیوں کی وہاں آبادی تھی اور نبطیوں کے تجارتی قافلے برابر حجاز میں آتے رہتے تھے۔ یقینا نبطیوں میں اس واقعہ کی شہرت ہوگی اور انہی سے عربوں نے سنا ہوگا۔ خود قریش مکہ کے تجارتی قافلے بھی ہر سال شام جایا کرتے تھے اور سفر کا ذریعہ وہی شاہراہ تھی جو رومیوں نے ساحل خلیج سے لے کر ساحل مارمورا تک تعمیر کردی تھی پیٹرا اسی شاہراہ پر واقع تھا۔ بلکہ اس نواح کی سب سے پہلی تجارتی منڈی تھی، اس لیے اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ واقعہ ان کے علم میں آگیا ہو۔ اس سلسلہ میں چند باتیں اور تشریح طلب ہیں : اصل واقعہ : (الف) آیت (٩) (ام حسبت ان اصحب الکھف والرقیم کانوا من ایتنا عجبا) کا اسلوب خطاب کہہ رہا ہے کہ کچھ لوگ اصحاب کہف والرقیم کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا معاملہ قدرت الہی کا ایک عجیب و غریب کرشمہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں نے پیغمبر اسلام سے ان کا ذکر کیا ہے اور اب وحی الہی اس معاملہ کی حقیقت واضح کر رہی ہے۔ چنانچہ پہلے مجملا اس کا خلاصہ اور نتیجہ بتلا دیا کہ جو کچھ پیش آیا تھا وہ اس سے زیادہ نہیں ہے اور جو کچھ عبرت و تذکیر کی بات ہے وہ یہ ہے۔ پھر آیت (١٣) میں فرمایا (نحن نقص علیک نباھم بالحق) اب ہم تجھے ان کی سچی خبر سنا دیتے ہیں۔ یعنی واقعہ کی چند ضروری تفصیلات بیان کردیتے ہیں چنانچہ اس کے بعد تفصیلات بیان کی ہیں۔ یہ مجمل خلاصہ جو آیت (١٠) سے (١٢) تک بیان کیا ہے، تمام سرگزشت کا ماحصل ہے، اسی کی روشنی میں بقیہ تفصیلات پڑھنی چاہیں۔ فرمایا چند نوجوان تھے جنہوں نے سچائی کی راہ میں دنیا اور دنیا کی راحتوں سے منہ موڑا اور ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے۔ ان کے پیچھے ظلم و ستم کی قوتیں تھیں سامنے غار کی تاریکی و وحشت۔ تاہم وہ ذرا بھی ہراساں نہ ہوئے، انہوں نے کہا، خدایا ! تیری ہی رحمت کا آسرا ہے، اور تیری ہی چارہ سازی پر بھروسہ۔ چنانچہ کئی سال تک وہ وہیں رہے اور اس طرح رہے کہ دنیا کی صداؤں کی طرف سے ان کے کام بالکل بند تھے۔ پھر ہم نے انہیں اٹھا کھڑا کیا تاکہ واضح ہوجائے ان دونوں جماعتوں میں سے کون گروہ تھا جس نے اس عرصہ میں نتائج عمل کا بہتر اندازہ کیا ہے؟ ای الحزبین احصی؟ یعنی صورت حال نے دو جماعتیں پیدا کردی تھیں۔ ایک اصحاب کہف تھے، ایک انکے مخالف، ایک نے حق کی پیروی کی، دوسرے نے ظلم و تشدد پر کمر باندھی۔ یہ چند برسوں کی مدت دونوں جماعتوں پر گزری تھی، اس پر بھی جو غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور اس پر بھی جس نے غار میں پناہ لینے کے لیے انہیں مجبور کیا۔ اب دیکھا یہ تھا کہ دونوں میں سے کس نے کمایا ہے؟ اور کس نے کھویا ہے؟ کون ان دونوں میں وقت کا بہتر اندازہ شناس تھا؟ چنانچہ آگے چل کر جو تفصیلات آتی ہیں ان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ظالم جماعت کی عمر بہت تھوڑی تھی اور بالآخر وہی راہ فتح مند ہونے والی تھی جو اصحاب کہف نے اختیار کی تھی۔ کیونکہ بالآخر مسیحی دعوت تمام ملک میں پھیل گئی اور جب کچھ عرصہ کے بعد وہ غار سے نکلے اور ایک آدمی کو آبادی میں بھیجا، تو اب مسیحی ہونا کوئی ناقابل معافی جرم نہیں تھا، عزت و سربراہی کی سب سے بڑی عظمت تھی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان پرستار ان حق کی استقامت ہی تھی جس نے دعوت حق کو فتح مند کیا۔ اگر وہ مظالم سے تنگ آکر اتباع حق سے دست بردار ہوجاتے تو یقینا یہ انقلاب ظہور میں نہ آتا۔ (ب) اس کے بعد واقعہ کی بعض تفصیلات واضح کردی ہیں، جو لوگ خدا پرستی کی راہ اختیار کرتے تھے ان کی مخالفت میں تمام باشندے کمر بستہ ہوجاتے۔ اور اگر وہ اپنی روش سے باز نہ آتے تو سنگسار کرتے۔ یہ حالت دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا، آبادی سے منہ موڑیں اور کسی غار میں معتکف ہو کر ذکر الہی میں مشغول ہوجائیں۔ چنانچہ ایک غار میں مقیم ہوگئے۔ غار کی نوعی : ان کا ایک وفادات کتا تھا، وہ بھی ان کے ساتھ غار میں چلا گیا۔ جس غار میں انہوں نے پناہ لی اور اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اگرچہ اندر سے کشادہ ہے اور وہاں نہ کھلا ہوا لیکن سورج کی کرنیں اس میں راہ نہیں پاسکتیں، نہ تو چڑھتے دن میں نہ ڈھلتے میں۔ جب سورج نکلتا ہے تو داہنی جانب رہتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ جب ڈھلتا ہے تو بائیں جانب رہتے ہوئے غروب ہوجاتا ہے۔ یعنی غار اپنے طول میں شمال و جنوت رویہ واقع ہے۔ ایک طرد ہانہ ہے، دوسری طرف منفذ۔ روشنی اور ہوا دنوں طرف سے آتی ہے لیکن دھوپ کسی طرف سے بھی راہ نہیں پاسکتی۔ اس صورت حال سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک کہ زندہ رہنے کے لیے وہ نہایت محفوظ اور موزوں مقام ہے۔ کیونکہ ہوا اور روشنی کی راہ موجود ہے مگر دھوپ کی تپش پہنچ نہیں سکتی۔ پھر اندر سے کشادہ ہے، جگہ کی کمی نہیں، دوسری یہ کہ بارہ سے دیکھنے والوں کے لیے اندر کا منظر بہت ڈراؤنا ہوگیا ہے۔ کیونکہ روشنی کے منافذ موجود ہیں اس لیے بالکل اندھیرا نہیں رہتا۔ سورج کسی وقت سامنے آتا نہیں اس لیے بالکل اجا الا بھی نہیں ہوتا، روشنی اور اندھیری کی ملی جلی حالت رہتی ہے اور جس غار کی اندرونی فضا ایسی ہو، اسے باہر سے جھانک کردیکھا جائے تو اندر کی ہر چیز ضرور ایک بھیانک منظر پیش کرے گی۔ انقلاب حال : یہ لوگ کچھ عرصہ تک غار میں رہے، اس کے بعد نکلے تو انہیں کچھ اندازہ نہ تھا کتنے عرصے تک اس میں رہے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے باشندوں کا وہی حال ہوگا جس حال میں انہیں چھوڑا تھا۔ لیکن اس عرصہ میں یہاں انقلاب ہوچکا تھا، اب غلبہ ان لوگوں کا تھا جو اصحاب کہف ہی کی طرح خدا پرستی کی راہ اختیار کرچکے تھے۔ جب ان کا ایک آدمی شہر میں پہنچا تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی، اب وہی لوگ جنہوں نے انہیں سنگسار کرنا چاہا تھا ان کے ایسے معتقد ہوگئے کہ ان کی غار نے زیارت گاہ عام کی حیثیت اختیار کرلی اور امرائے شہر نے فیصلہ کیا کہ یہاں ایک ہیکل تعمیر کیا جائے۔ ضرب علی الآذان : (ج) اصحاب کہف نے یہ مدت کس حال میں بسر کی تھی؟ اس بارے میں قرآن نے صرف اس قدر اشارہ کیا ہے کہ (فضربنا علی اذانھم فی الکھف سنین عددا) ضرب علی الآذان کے صاف معنی تو یہ ہیں کہ ان کے کان دنیا کی طرف سے بند ہوگئے تھے۔ یعنی دنیا کی کوئی صدا ان تک نہیں پہنچتی تھی لیکن مفسرین نے اسے نیند پر محمول کیا ہے یعنی ان پر نیند طاری ہوگئی تھی اور چونکہ نیند کی حالت میں آدمی کوئی آواز نہیں سنتا اس لیے اس حالت کو ضرب علی الاذان سے تعبیر کیا گیا۔ اس تفسیر میں اشکال یہ ہے کہ عربی میں نیند کی حالت کے لیے ضرب علی الآذان کی تعبیر ملتی نہیں، لیکن وہ کہتے ہیں یہ ایک طرح کا استعارہ ہے۔ گہری نیند کی حالت کو ضرب علی الاذان کی حالت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ففی الکلام تجوز بطریق الاستعارۃ التبعیہ۔ اصل یہ ہے کہ اصحاب کہف کا جو قصہ عام طور پر مشہور ہوگیا تھا وہ یہی تھا کہ غار میں برسوں تک سوتے رہے اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ بعد کو بھی اسی طرح روایتیں مشہور ہوگئیں۔ عرب میں قصہ کے اصلی روامی شام کے نبطی تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس قصہ کی اکثر تفصیلات تفسیر کے انہی روایوں پر جاکر منتہی ہوتی ہیں جو اہل کتاب کے قصوں کی روایت میں مشہور ہوچکے ہیں مثلا ضحاک اور سدی۔ بہرحال اگر یہاں ضرب علی الآذان سے مقصود نیند کی حالت ہو تو پھر مطلب یہ قرار پائے گا کہ وہ غیر معمولی مدت تک نیند کی حالت میں پڑے رہے اور (ثم بعثناھم) کا مطلب یہ کرنا پڑے گا کہ اس کے بعد نیند سے بیدار ہوگئے۔ یہ بات کہ ایک آدمی پر غیر معمولی مدت تک نیند کی حالت طاری رہے اور پھر بھی زندہ رہے طبی تجارب کے مسلمات میں سے ہے اور اس کی مثالیں ہمیشہ تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ پس اگر اصحاب کہف پر قدرت الہی سے کوئی ایسی حالت طاری ہوگئی ہو جس نے غیر معمولی مدت تک انہیں سلائے رکھا تو یہ کوئی مستبعد بات نہیں۔ البتہ قرآن حکیم کی تصریح اس بارے میں ظٓہر اور قطعی نہیں ہے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ جزم و یقین کے ساتھ کچھ نہ کہا جائے۔ آیت (١٨) (وتحسبھم ایقاظا وھم رقود) میں اس صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت تھی یا جو حالت اس غار کی ایک مدت تک رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انقلاب حال کے بعد اصحاب کہف نے غار کی گوشہ نشینی ترک نہیں کی تھی، اسی میں رہے، یہاں تک کہ انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال کے بعد غار کی حالت ایسی ہوگئی کہ باہر سے کوئی دیکھے تو معلوم ہو زندہ آدمی موجود ہیں۔ دہانے کے قریب ایک کتا دونوں ہاتھ آگے کیے بیٹھا ہے۔ حالانکہ نہ تو آدمی زندہ ہیں نہ کتا ہی زندہ ہے۔ تفسیر : (وتحسبھم ایقاظا وھوم رقود : لیکن باہر سے دیکھنے والا انہیں زندہ اور جاگتا کیوں سمجھے؟ اگر ان کی نعشیں پڑی ہیں تو نعشوں کو کوئی زندہ تصور نہیں کرسکتا، اگر رقود سے مقصود سونے کی حالت ہے اور وہ لیٹے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک لیٹا ہوا آدمی دیکھنے والے کو جاگتا دکھائی دے۔ مفسرین نے یہ اشکال محسوس کیا لیکن اس کا کوئی حل دریافت نہ کرسلے۔ بعضوں نے کہا وہ اس لیے جاگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن اگر ایک بے حس و حرکت نعش پڑی دکھائی دے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوں تو دیکھنے والا اسے ہوشیار بیدار کیوں سمجھنے لگا؟ یہی سمجھے گا کہ مرگیا ہے مگر آنکھیں کھلی رہ گئی ہیں۔ بعضوں نے کہا (نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال) کی وجہ سے وہ بیدار دکھائی دیتے ہیں یعنی چونکہ دہنے بائیں کروٹ بدلتی رہتی ہے اس لیے دیکھنے والا خیال کرتا ہے یہ بیدار ہیں۔ لیکن یہ توجیہ پہلے سے بھی زیادہ بے معنی ہے۔ اول تو کروٹ بدلنا بیداری کی دلیل نہیں، آدمی گہری سے گہری نیند میں ہوتا ہے اور کروٹ بلدتا ہے۔ ثانیا اگر کروٹ بدلتے ہوں گے تو کچھ وقفہ کے بعد بدلتے ہوں گے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہر آن کروٹ بدلتے ہی رہتے ہوں اور جب کبھی کوئی جھانک کر دیکھے انہیں کروٹ بدلتا ہی پائے۔ لطف یہ ہے کہ (نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال) کی تفسیر میں یہی مفسر ہمیں بتلاتے ہیں کہ بعضوں کے نزدیک سال میں دو دفعہ کروٹ بدلتی ہے، بعضوں کے نزدیک ایک مرتبہ۔ بعض کہتے ہیں تین سال بعد، بعض کہتے ہیں نو سال بعد۔ علاوہ بریں قرآن نے یہ بات جس اسلوب و شکل میں بیان کی ہے اس پر ان نکتہ سنجوں نے غور نہیں کیا (لواطلعت علیھم لولیت منھم فرارا ولملئت منھم رعبا) یعنی غار کے اندر کا منظر اس درجہ دہشت انگیز ہے کہ اگر تم جھانک کر دیکھو تو خوف کے مارے کانپ اٹھو اور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ اس سے معلوم ہوا غار کے اندر اصحاب کہف کے اجسام نے ایسا منظر پیدا کردیا ہے جو بے حد دہشت انگیز ہے۔ اگر کوئی آدمی باہر سے دیکھے تو دیکھنے کے ساتھ ہی اس پر دہشت چھا جائے۔ معا الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہو۔ اب اگر اندر کا منظر صرف اتنا ہی تھا کہ چند آدمی لیٹے ہوئے ہیں اور آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تو یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے اس درجہ دہشت انگیزی پیدا ہوسکے۔ علاوہ بریں جو آدمی باہر سے جھانکے گا وہ اتنا باریک بیں نہیں ہوسکتا کہ غار کی تاریکی میں لیٹے ہوئے آدمیوں کی آنکھیں بھی بہ اول نظر دیکھ لے اور وہ بھی اس حالت میں کہ دہنے یا بائیں کروٹ پر لیٹے ہوئے ہوں۔ مفسرین کی حیرانیاں اور انکشاف حقیقت : دراصل یہ سارا معاملہ ہی دوسرا ہے اور جب تک مفسرین کے پیدا کیے ہوئے تخیل سے بالکل الگ ہو کر تحقیق نہ کی جائے، اصلیت کا سراغ نہیں مل سکتا۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو حالت اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ کس وقت کی ہے؟ اس وقت کی ہے جب وہ نئے نئے غار میں جاکر مقیم ہوئے تھے؟ یا اس وقت کی جب انکشاف حال کے بعد دوبارہ معتکف ہوگئے؟ مفسرین نے خیال کیا اس کا تعلق پہلے وقت سے ہے اور یہی بنیادی غلطی ہے جس نے سارا الجھاؤ پیدا کردیا ہے، دراصل اس کا تعلق بعد کے حالات سے ہے، یعنی جب وہ ہمیشہ کے لیے غار میں گوشہ نشین ہوگئے، اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وفات پاگئے تو غار کے اندرونی منظر کی یہ نوعیت ہوگئی تھی (وتحسبھم ایقاظا وھم رقود) میں ایقاظ سے مقصود ان کا زندہ ہونا ہے اور رقوم سے مردہ ہونا۔ نہ کہ بیداری اور خواب۔ چنانچہ عربی میں زندگی و موت کے لیے یہ تعبیر عام و معلوم ہے۔ پھر یہ بات سامنے لانی چاہیے کہ یہ واقعہ مسیحی دعوت کی ابتدائی صدیوں کا ہے، اور جنہیں پیش آیا تھا وہ عیسائی تھے، صرف اتنی بات پر غور کرنے سے سارا معاملہ حل ہوجاتا ہے۔ مسیحی دعوت کے ابتدائی قرنوں ہی میں زہد و انزوا کی ایک خاص زندگی شروع ہوگئی تھی جس نے آگے چل کر رہبانیت (مناسٹک ازم) کی مختلف شکلیں اختیار کرلیں۔ اس زندگی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ لوگ ترک علائق کے بعد کسی پہاڑ کی غار میں یا کسی غیر آباد گوشہ میں معتکف ہوجاتے تھے۔ اور پھر ان پر استغراق عبادت کی ایسی حالت طاری ہوجاتی تھی کہ وضع و نشست کی جو حالت اختیار کرلیتے اسی میں پڑے رہتے۔ یہاں تک کہ زندگی ختم ہوجاتی۔ مثلا اگر قیام کی حالت میں مشغول ہوئے تھے تو برابر کھڑے ہی رہتے اور اسی حالت میں جان دے دیتے۔ اگر گھٹنے کے بل رکوع کی حالت اختیار کی تھی تو یہی حالت آخر تک قائم رہتی۔ اگر سجدے میں سر رکھ دیا تھا تو پھر سجدے ہی میں پڑے رہتے اور مرنے کے بعد بھی اسی وضع میں نظر آتے، زیادہ تر گھٹنے کے بل رکوع کی وضع اختیار کی جاتی تھی۔ کیونکہ عیسائیوں میں تعبد و تضرع کے لیے یہی وضع رائج ہوگئی تھی۔ غذا کی طرف سے یہ لوگ بالکل بے پروا ہوتے تھے، اگر آبادی قریب ہوتی تو لوگ روٹی اور پانی پہنچا دیا کرتے، نہیں ہوتی تو یہ اس کی جستجو نہیں کرتے، عبادت کا استغراق جستجو کی مہلت ہی نہیں دیتا۔ اس اعتبار سے ان کی حالت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان کے یوگیوں کی رہ چکی ہے اور اب بھی گاہ گاہ نظر آجاتی ہے۔ جس طرح زندگی میں انہیں کوئی نہیں چھیڑتا تھا، اسی طرح مرنے کے بعد بھی کوئی اس کی جرات نہ کرتا، مدتوں تک ان کی نعشیں اسی حالت میں باقی رہتیِ جس حالت میں انہوں نے زندگی کے آخری لمحے بسر کیے تھے۔ اگر موسم موافق ہوتا اور درندہ سے حفاظت ہوتی تو صدیوں تک ڈھانچے باقی رہتے اور فاصہ سے دیکھنے والا انہیں زندہ انسان تصور کرتا۔ چنانچہ ویٹی گان کے تہ خانوں میں بے شمار ڈھانچے آج تک محفوظ ہیں جو اسی طرح کے مقامات سے بر آمد ہوئے تھے اور اپنی اصلی وضع و ہیئت پر باقی تھے۔ ابتدا میں اس غرض سے زیادہ تر پہاڑوں کی غاریں یا پرانی عمارتوں کے کھنڈر اختیار کیے گئے تھے، لیکن آگے چل کر یہ طریقہ اس درجہ عام ہوگیا کہ خاص خاص عمارتیں اس غرض سے تعمیر کی جانے لگیں۔ یہ عمارتیں اس طرح بنائی جاتی تھیں کہ ان میں آمد و رفت کے لیے کوئی دروازہ نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ جو جاتا تھا وہ پھر باہر نہیں نکلتا تھا۔ صرف ایک چھوٹی سی سلاخ دار کھڑکی رکھی جاتی تھی جو ہوا اور روشنی کا ذریعہ ہوتی اور اسی کے ذریعہ سے لوگ غذا بھی پہنچا دیتے۔ بعد کو جب مناسٹک ازم (رہبانیت) کے باقاعدہ ادارے قائم ہوگئے تو اس طرح کے انفرادی انزوا کی مثالیں کم ہوتی گئیں۔ تاہم تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ ازمنہ و سطی تک یہ طریقہ ععام طور پر جاری تھا اور یورپ کی کوئی آبادی ایسی نہ تھی جو اس طرح کی عمارتوں سے خالی ہو۔ ان مقامات کو عام طور پر Sogette کہتے تھے اور جب ایک راہب یا راہبہ کا ان میں انتقال ہوجاتا تو ان پر یہ لاطینی لفظ کندہ کردیا جاتا کہ TU- ORA یعنی اس کے لیے دعا کرو۔ تمام تاریخیں متفق ہیں کہ مسیحی رہبانیت سب سے پہلے مشرق میں شروع ہوئی اور اس کا بڑا مرکز فلسطین اور مصر تھا۔ پھر چوتھی صدی مسیحی میں یہ یورپ پہنچی اور سینٹ بینی ڈکٹ (Benedict) نے سب سے پہلے اس کے قواعد و ضوابط منضبط کیے۔ سینٹ بینی ڈکٹ نے بھی ایک پہاڑ کی غار ہی میں گوشہ نشینی اختیار کی تھی۔ مسیحی رہبانیت کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس کی ابتدا اضطراری حالات سے ہوئی تھی۔ آگے چل کر اس نے ایک اختیاری عمل کی نوعیت پیدا کرلی۔ یعنی ابتدا میں لوگوں نے مخالفوں کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر غاروں اور جنگلوں میں گوشہ نشینی اختیار کی، پھر ایسے حالات پیش آئے کہ یہ اضطرای طریقہ زہد و تعبد کا ایک اختیار اور مقبول طریقہ بن گیا۔ مزید تشریح اس مقام کی سورۃ حدید کی تشریحات میں ملے گی۔ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کا معاملہ بھی تمام تر اسی نوعیت کا تھا، ابتدا میں قوم کے ظلم نے انہیں مجبور کیا تھا کہ غار میں پناہ لیں، لیکن جب کچھ عرصہ تک وہاں مقیم رہے تو زہد و عبادت کا استغراق کچھ اس طرح ان پر چھا گیا کہ پھر دنیا کی طرف لوٹنے پر آمادہ نہ ہوسکے اور گو ملک کی حالت بدل گئی تھی لیکن وہ بدستور غار ہی میں معکتف رہے۔ یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا، انتقال اس حال میں ہوا کہ جس شخص نے ذکر و عبادت کی جو وضع اختیار کرلی تھی وہی وضع آخری لمحوں تک باقی رہی، ان کے وفادار کتنے بھی آکر تک ان کا ساتھ دیا۔ وہ پاسبانی کے لیے دہانے کے قریب بیٹھا رہتا تھا جب اس کے مالک مرگئے تو اس نے بھی وہیں بیٹھے بیٹھے دم توڑ دیا۔ اب اس واقعہ کے بعد غار کے اندرونی منظر نے ایک عجیب دہشت انگیز نوعیت پیدا کرلی، اگر کوئی باہر سے جھانک کر دیکھے تو اسے راہبوں کا ایک پورا مجمع ذکر و تعبد میں مشغول دکھائی دے گا۔ کوئی گھٹنے کے بل رکوع کی حالت میں ہے، کوئی سجدے میں پڑا ہے، کوئی ہاتھ جوڑے اوپر کی طرف دیکھ رہا ہے، دہانے کے قریب ایک کتاب ہے، وہ بھی بازو پھیلائے باہر کی طرف منہ کیے ہوئے ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ممکن نہیں کہ آدمی دہشت سے کانپ نہ اٹھے۔ کیونکہ اس نے یہ سمجھ کر جھانکا تھا کہ مردوں کی قبر ہے، مگر منظر جو دکھائی دیا وہ زندہ انسانوں کا ہے۔ (ز) یہ تفسیر سامنے رکھ کر معاملہ کے تمام پہلوؤں پر نظر ڈالو، ہر بات اس طرح واضح ہوجاتی ہے گویا تمام قفلوں کو کھلنے کے لیے صرف اسی ایک کنجی کا انتظار تھا (وتحسبھم ایقاظا وھم رقود) کا مطلب بھی ٹھیک ٹھیک اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ کسی دوراز کار توجیہ کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ اس طرح کا منظر یہی خیال پیدا کرے گا کہ لوگ زندہ ہیں۔ حالانکہ زندہ نہیں۔ (لواطلعت علیھم لولیت منھم فرارا ولملئت منھم رعبا) کی علت بھی سامنے آگئی اور وہ تمام بے معنی توجیہیں غیر ضروری ہوگئیں جن پر امام رازی مجبور ہوگئے ہیں۔ اگر تم کسی قبر کے اندر جھانک کر دیکھو اور تمہیں مردہ نعش کی جگہ ایک آدمی نماز پڑھتا دکھائی دے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ یقینا مارے دہشت کے چیخ اٹھو گے۔ اسی طرح (نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال) کی تفسیر میں بھی کسی تکلف کی احتیاج باقی نہ رہی۔ غار شمال و جناب رویہ واقع تھا۔ اور ان دونوں جہتوں میں ہوا اور روشنی کے منافذ تھے۔ جیسا کہ آیت (وتری الشمس اذا اطلعت) سے متبادر ہوتا ہے۔ پس بالمقابل منافذ ہونے کی وجہ سے ہوا برابر اندر چلتی رہتی اور ان کے ڈھانچے دہنے سے بائیں اور بائیں سے دہنی جانب اس طرح متحرک رہتے تھے، جیسے ایک زندہ آدمی ایک طرف سے پلٹ کر دوسری طرف دیکھے۔ ذلک من ایات اللہ : اس تفسیر کے بعد اس سوال کا جواب بھی خودبخود مل گیا کہ قرآن نے خصوصیت کے ساتھ یہ بات کیوں بیان کی کہ سورج کی کرنیں غار کے اندر نہیں پہنچتیں جیسا کہ آیت (١٧) میں ہے اور کیوں اسے قدرت الہی کی ایک نشانی فرمایا کہ (ذلک من آیات اللہ) معلوم ہوگیا کہ یہ دراصل اس بات کی تمہید تھی جو بعد کو آیت (١٨) میں بیان کی گئی ہے کہ (تحسبھم ایقاظا وھم رقود) یعنی چونکہ یہ بات بیان کرنی تھی کہ مرنے کے بعد ان کی نعشیں عرصہ تک باقی رہیں حتی کہ دیکھنے والوں کو زندہ انسانوں کا گمان ہوتا تھا اس لیے پہلے اس کی علت واضح کردی کہ جس غار میں معتکف ہوئے تھے وہ اس طرح کی غار تھی کہ انسانی جسم زیادہ سے زیادہ عرصہ تک اس میں قائم رہ سکتا تھا۔ کیونکہ سورج کی روشنی اس میں پہنچتی رہتی تھی، لیکن سورج کی تپش کا اس میں گزر نہ تھا، جو چیز نعش کو جلد گلا سڑا دیتی ہے وہ سورج کی تپش ہے اور جو چیز تازگی پیدا کرتی ہے وہ ہوا اور روشنی ہے۔ ہوا چلتی رہتی تھی روشنی پہنچتی رہتی ہے مگر تپش سے پوری حفاظت تھی۔ وذلک من ایات اللہ۔ (ثلاث مائۃ سنین) کی تفسیر : (ح) (ولبثوا فی کھفھم ثلاث مائۃ سنین وازدادوا تسعا) کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ خود قرآن کی تصریح ہے کہ وہ لوگ اتنی مدت تک غار میں پڑے رہے؟ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر اس کے بعد کیوں فرمایا کہ (قل اللہ اعلم بما لبثوا) مفسرین کو اس اشکال کے دور کرنے میں طرح طرح کے تکلفات کرنے پڑے حالانکہ صاف مطلب وہی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے، یعنی جس طرح پہلے ان کی تعداد کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال نقل کیے تھے اسی طرح یہاں مدت بقا کے بارے میں لوگوں کا قول نقل کیا ہے۔ یعنی لوگ کہتے ہیں غار میں تین سو برس تک رہے، بعضوں نے اس پر نو برس اور بڑھا دیے، تم کہہ دو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ فی الحقیقت کتنی مدت گزر چکی ہے۔ پس یہ قرآن کی تصریح ہے لوگوں کا قول ہے اور سیقولون سے نقل اقوال کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اسی سلسلہ کی یہ آخری کڑی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی ایسی ہی تفسیر مروی ہے۔ (ط) امام قرطبی نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کی ہے کہ اولئک قوم فنوا وعدموا منذ مدۃ طویلہ۔ یعنی اصحاب کہف کی موت پر ایک مدت گزر چکی ہے۔ ان کے اجسام فنا ہوگئے جس طرح ہر جسم فنا ہوجاتا ہے۔ ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شام کی غزوات میں بعض صحابہ کا گزر اصحاب کہف کی غار پر ہوا تھا اور انہیں ان کی ہڈیاں ملی تھیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہو تو اس سے اس کی بھی مزید تصدیق ہوگئی کہ یہ واقعہ پیٹرا میں پیش آیا تھا۔ مسیحی رہبانیت کے طریقہ کی نسبت مندرجہ صدر بیان میں جو اشارات کیے گئے ہیں، ان کی تفصیلات کے لیے حسب ذیل کتابیں دیکھنی چاہیے : The paradise of Garden of the Holy fathers, By E.A.W Budge. The Evolution of the Monaste Ideal, By H.Workman. Five Centuries of Religion, by G.G Coulton The Medieval Mind, By H.۔ Taylor صاحب موسیٰ (علیہ السلام) : آیت (٦٥) میں حضرت موسیٰ کے جس شخص سے ملنے کا ذکر کیا گیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم عطا فرمایا تھا وہ کون تھا؟ اس بارے میں قرآن نے کوئی تصریح نہیں کی ہے، لیکن صحیحین کی روایت سعید بن جبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نام خضر تھا۔ اس بارے میں بہت سی روایتیں مفسرین نے نقل کی ہیں جن کی صحت نظر ہے اور تصریحات متناقص، اور زیادہ تر اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ ذوالقرنین : اس سورت میں تیسرا واقعہ جو بیان کیا گیا ہے وہ ذوالقرنین کا ہے، کیونکہ لوگوں نے اس بارے میں سوال کیا تھا۔ تمام مفسرین متفق ہیں کہ سوال یہودیوں کی جانب سے تھا، اگرچہ غالبا مشرکین مکہ کی زبانی ہوا، کیونکہ سورت مکی ہے۔ (الف) قرآن نے ذوالقرنین کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے اس پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل امور سامنے آجاتے ہیں : اولا : جس شخصیت کی نسبت پوچھا گیا ہے وہ یہویوں میں ذوالقرنین کے نام سے مشہور تھی یعنی ذوالقرنین کا لقب خود قرآن نے تجویز نہیں کیا ہے، پوچھنے والوں کا مجوزہ ہے کیونکہ فرمایا (ویسئلونک عن ذی القرنین) ثانیا : اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اسے حکمرانی عطا فرمائی تھی اور ہر طرح کا سازوسامان جو ایک حکمراں کے لیے ہوسکتا تھا اس کے لیے فراہم ہوگیا تھا۔ ثالثا : اس کی بڑی مہمیں تین تھیں۔ پہلے مغربی ممالک فتح کیے، پھر مشرقی، پھر ایک ایسے مقام تک فتح کرتا ہوا چلا گیا جہاں پہاڑی درہ تھا اور اس کی دوسری طرف سے یاجوج ماجوج آخر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔ رابعا : اس نے وہاں ایک نہایت محکم سدی تعمیر کردی اور یاجوج و ماجوج کی راہ بند ہوگئی۔ خامسا : وہ ایک عادل حکمراں تھا۔ جب وہ مغرب کی طرف تح کرتا ہوا دور تکچ لا گیا تو ایک قوم ملی جس نے خیال کیا کہ دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح ذوالقرنین بھی ظلم و تشدد کرے گا۔ لیکن ذوالقرنین نے اعلان کیا کہ بے گناہوں کے لیے کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ جو لوگ نیک عملی کی راہ چلیں گے، ان کے لیے ویسا ہی اجر بھی ہوگا۔ البتہ ڈرنا انہیں چاہیے جو جرم و بدعملی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سادسا : وہ خدا پرست اور راست باز انسان تھا اور آخرت کی زندگی پر یقین رکھتا تھا۔ سابعا : وہ نفس پرست پادشاہوں کی طرح طامع اور حریص نہ تھا۔ جب ایک قوم نے کہا یاجوج ماجوج ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ آپ ہمارے اور انکے درمیان ایک سد تعمیر دکیں، ہم خراج دیں گے، تو اس نے کہا (ما مکنی فیہ ربی خیر) جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہی میرے لیے بہتر ہے۔ میں تمہارے خراج کا طامع نہیں، یعنی میں خراج کی طمع سے یہ کام نہیں کروں گا۔ اپنا فرض سمجھ کر انجام دوں گا۔ تاریخ قدیم کی جس شخصیت میں یہ تمام اوصاف و اعمال پائے جائیں، وہی ذوالقرنین ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون شخص تھا؟ مفسرین کی حیرانی : سب سے پہلا حل طلب مسئلہ جو مفسرین کے سامنے آیا وہ اس کے لقب کا تھا۔ عربی میں بھی اور عبرانی میں بھی قرن کے صاف معنی سینگ کے ہیں۔ پس ذوالقرنین کا مطلب ہو اور دو سینگوں والاں، لیکن چونکہ تاریخ میں کسی ایسے بادشاہ کا سراغ نہیں ملا جس کا ایسا لقب رہا ہو اس لیے مجبورا قرن کے معنی میں طرح طرح کے تکلفات کرنے پڑے۔ پھر چونکہ فتوحات کی وسعت اور مغرب و مشرق کی حکمرانی کے لحاظ سے سکندر مقدونی کی شخصیت سب سے زیادہ مشہور رہی ہے اس لیے متاخرین کی نظریں اسی کی طرف اٹھ گئیں۔ چنانچہ امام رازی نے سکندر ہی کو ذوالقرنین قرار دیا ہے۔ اور اگرچہ حسب عادت وہ تمام اعتراضات نقل کردیے ہیں جو اس تفسیر پر وارد ہوتے ہیں لیکن پھر حسب عادل ان کے بے محل جوابات پر مطمئن بھی ہوگئیے ہیں۔ حالانکہ کسی اعتبار سے بھی قرآن کا ذوالقرنین سکندر مقدونی نہیں ہوسکتا، نہ تو وہ خدا پرست تھا، نہ عادل تھا، نہ مفتوح قوموں کے لیے فیاض تھا اور نہ اس نے کوئی سد ہی بنائی۔ بہرحال مفسرین ذوالقرنین کی شخصیت کا سراغ نہ لگا سکے۔ دانیال نبی کا خواب : اگر ذوالقرنین کے مفہوم کا کوئی سراغ ملتا تھا تو وہ صڑف ایک دور کا اشارہ تھا جو حضرت دانیال کی کتاب میں ملتا ہے۔ یعنی ایک خواب جو انہوں نے بابل کی اسیری کے زمانے میں دیکھا تھا۔ بابل کی اسیری کا زمانہ یہودیوں کے لیے نہایت مایوسی کا زمانہ تھا۔ ان کی قومیت پامال ہوچکی تھی ان کا ہیکل منہدم ہوچکا تھا۔ ان کے شہر اجاڑ تھے اور وہ نہیں جانتے تھے کہ اس ہلاکت کے بعد ان کی زندگی کا کیا سامان ہوسکتا ہے۔ اسی زمانہ میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا جو اپنے علم و حکمت کی وجہ سے شاہان بابل کے دربار میں نہایت مقرب ہوگئے تھے، انہی کی نسبت تورات میں بیان کیا گیا ہے کہ بیلش ضار شاہ بابل کی سلطنت کے تیسرے برس انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا اور اس خواب میں انہیں آنے والے واقعات کی بشارت دی گئی تھی۔ چنانچہ کتاب دانیال میں ہے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ ہیں، دونوں سینگ اونچے تھے لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا اور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا، میں نے دیکھا کہ پچھم اتر اور دکھن کی طرف وہ سینگ مارتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا اور وہ بہت بڑا ہوگیا۔ میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ دیکھو، پچھم کی طرف سے ایک بکرا آکے تمام روئے زمین پر پھر گیا۔ اس بکرے کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک عجیب طرحح کا سینگ تھا۔ وہ دو سینگ والے مینڈھے کے پاس آیا اور اس پر غضب سے بھڑکا اور اس کے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور مینڈھے کو قوت نہ تھی کہ اس کا مقابلہ کرے۔ (دانیا : ١: ٨) پھر اس کے بعد ہے کہ جبرئیل نمایاں ہوا اور اس نے اس خواب کی یہ تعبیر بتلائی کہ دو سینگوں والا مینڈھا مادہ اور فارس کی بادشاہت ہے اور بال والا بکرا یونان کی، جو بڑا سینگ اس کی آنکھوں کے درمیان دکھائی دیا ہے وہ اس کا پہلا بادشاہ ہوگا۔ (١٥: ٨) دو سینگوں والی شہنشائی : اس بیان سے معلوم ہوا کہ مادہ (میڈیا) اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دی گئی تھی اور چونکہ یہ دونوں مملکتیں ملکر ایک شہنشاہی بننے والی تھیں اس لیے شہنشاہ مادہ و فارس کو دو سینگوں والے مینڈھے کی شکل میں ظاہر کیا گیا۔ پھر اس مینڈھے کو جس نے شکست دی وہ یونان کے بکرے کا پہلا سینگ تھا یعنی سکندر مقدونی تھا جس نے فارس پر حملہ کیا اور کیانی شہنشاہی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس خواب میں بنی اسرائیل کے لیے بشارت یہ تھی کہ ان کی آزادی و خوشحالی کا نیا دور اسی دو سینگوں والی شہنشاہی کے ظہور سے وابسہ تھا۔ یعنی شہشناہ فارس بابل پر حملہ کر کے فتح مند ہونے والا تھا، اور پھر اسی کے ذریعہ سے بیت المقدس کی ازسرنو تعمیر اور یہودی قومیت کی دوبارہ شیرازہ بندی ہونے والی تھی۔ چنانچہ چند برسوں کے بعد سائرس کا ظہور ہوا۔ اس نے میڈیا اور پارس کی مملکتیں ملا کر ایک عظیم الشان شہنشاہی قائم کردی ہے اور پھر بابل پر پے در پے حملے کر کے اسے مسخر کرلیا۔ چونکہ اس خواب میں میڈیا اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دی گئی تھی، اس لیے خیال ہوتا تھا کہ عجب نہیں فارس کہ شہنشاہ کے لیے یہودیوں میں ذوالقرنین کا تخیل پیدا ہوگیا ہو۔ یعنی دو سینگوں والی شہنشاہی اور وہ اسے اس لقب سے پکارتے ہوں۔ تاہم یہ محض ایک قیاس تھا۔ اس کی تائید میں کوئی تاریخی شہادت موجود نہ تھی۔ سائرس کے مجسمہ کا انکشاف : لیکن ١٨٣٨ ء کے ایک انکشاف نے جس کے نتائج بہت عرصہ کے بعد منظر عام پر آئے، اس قیاس کو ایک تاریخی حقیقت ثابت کردیا اور معلوم ہوگیا کہ فی الحقیقت شہنشاہ سائرس کا لقب ذوالقرنین تھا اور یہ محض یہودیوں کا کوئی مذہب تخیل نہ تھا بلکہ خود سائرس کا یا باشندگان فارس کا مجوزہ اور پسندیدہ نام تھا۔ اس انکشاف نے شک و تخمین کے تمام پردے اٹھا دیے۔ یہ خود سائرس کی ایک سنگی تماثل ہے جو اصطخر کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی اس میں سائرہ کا جسم اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ اوپر خط میخی میں جو کتبہ کندہ تھا اس کا بڑا حصہ ٹوٹ کر ضائع ہوچکا ہے مگر جس قدر باقی ہے وہ اس کے لیے کافی ہے کہ تمثال کی شخصیت واضح ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ماد اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دینے کا تخیل ایک مقبول اور عام تخیل تھا۔ اور یقینا سائرس کو ذوالقرنین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ تمثال میں پروں کا ہونا اس کے ملکوتی صفات و فضائل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ نہ صرف پارسیوں میں بلکہ تمام معاصر قوموں میں یہ اعتقاد عام طور پر پیدا ہوگیا تھا کہ وہ ایک غیر معمولی نوعیت کا انسان ہے۔ دو سینگوں کا تخیل ابتدا میں کیونکر پیدا ہوا؟ کیا اس کی بنیاد دانیال نبی کا خواب تھا یا بطور خود سائرس نے یا باشندگان پارس نے یہ تصور پیدا کیا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے لیکن اگر تورات کی روایات تسلیم کرلی جائیں تو سارئس سے لے کر ارٹازر کسیز (ارتششت) اول تک تمام شہنشاہان پارس انبیائے بنی اسرائیل سے عقیدت رکھتے تھے، اور اس لیے ہوسکتا کہ اسی خواب سے ذوالقرنین کا لقب پیدا ہوگیا ہو۔ بہرحال اب اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ سائرس کو ذوالقرنین سمجھا جاتا تھا اور یقینا عرب کے یہودی بھی اسے اسی لقب سے پکارا کرتے تھے۔ (ب) اس حقیقت کی وضاحت کے بعد جب سائرس کے ان حالات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو یونانی مورخوں کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے بیان کی ہو بہو تصویر ہے اور دونوں بیان اس درجہ باہم مطابقت رکھتے ہیں کہ ممکن نہیں کسی دسری شخصیت کا وہم و گمان بھی کیا جاسکے۔ سائرس کے حالات کے تاریخی مصادر : زمانہ حال کے محققین تاریخ نے فارس کی تاریخ کو تین عہدوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا عہد حملہ اسکندر سے پہلے کا ہے۔ دوسرا پار تھوی یا ملوک الطوائف کا۔ تیسرا ساسانی سلاطین کا۔ فارسی شہنشاہی کی عظمت کا اصلی عہد وہی ہے جو حملہ اسکندر سے پہلے گزرا اور جس کی تاریخ سائرس کے ظہور سے شروع ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس عہد کے حالات معلوم کرنے کے براہ راست ذرائع مفقود ہوگئے ہیں۔ جس قدر بھی حالات روشنی میں آئے ہیں تمام تریونانی تحریروں سے ماخوذ ہیں۔ ان میں زیادہ معتمد تین مورض ہیں : ہیروڈوٹس (Herdotus) ٹی سیاز (Ctesias) اور زینوفون (Xenophon) فتح ایران کے بعد جب مورخین نے ایران کی تاریخ مرتب کرنی چاہیے تو انہیں جس قدر مواد ہاتھ آیا وہ تمام تر پارسیوں کی قومی روایات پر مشتمل تھا۔ ان روایات میں حملہ اسکندر سے پہلے کا زمانہ اسی طرح کے قومی افسانوں کی نوعیت رکھتا ہے جس طرح ہندوستان میں پرانوں کے افسانے یا مہا بھارت اور راماین کے قصے ہیں۔ البتہ پچھلے دو عہدوں کی روایتیں تاریخی بنیادوں پر مبنی تھیں۔ جب دقیقی اور فردوسی نے شاہنامہ نظم کرنا چاہا تو انہیں عربی میں یہی مواد ملا اور اسی کو انہوں نے نظم کا جامہ پہنا دیا۔ پس یہ تمام ذخیرہ قبل از سکندر عہد کے لیے کچھ سود من نہیں ہے، اور سائرس کے حالات کے لیے تمام تر یونانی مورخین کی شہادت ہی پر اعتماد کرنا ہے۔ حضرت مسیح سے پانچ سو ساٹھ برس پہلے ایران کی سرزمین دو مملکتوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جنوبی حصہ پارس کہلاتا تھا اور شمال مغربی میڈیا۔ چونکہ ان کے ہمسایہ میں آشوری اور بابی حکومتیں انتہا عروج تک پہنچ چکی تھیں اس لیے قدرتی طور پر ان سے دبی ہوئی تھیں۔ دونوں مملکتوں میں مختلف قبائل کے امراء تھے جو اپنے اپنے حلقوں میں بقائلی حکومت رکھتے تھے۔ ٦١٢ قبل مسیح میں جب نینوی تباہ ہوگیا اور آشوری فرماں روائی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی تو میڈیا کے باشندے آزاد ہوگئے اور بتدریج ایک قومی حکومت نشوونما پانے لگی۔ اسی طرح پارس کے امرائے قبائل میں سے بھی بعض امیروں کو سر اٹھانے کا موقع ملا اور حکمران خاندان پیدا ہوگیا تاہم یہ دونوں مملکتیں وقت کی بے اثر حکومتیں تھیں اور بابل کی شہنشاہی جسے نبوت کدرزر (بخت نصر) کی قہارانہ فتح مندیوں نے تمام ایشیا میں سربلند کردیا تھا سب پر چھائی ہوئی اور سب کو مقہور کیے ہوئے تھی۔ سائرس کا ظہور : لیکن ٥٥٩ قبل از مسیح میں ایک غیر معمولی شخصیت غیر معمولی حالات کے اندر اببھری اور اچانک تمام دنیا کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ یہ پارس کے ایک یمی نیز خاندان کا ایک نوجوان گورش تھا جسے یونانیوں نے سائرس، عبرانیوں نے خورس اور عربوں نے کے خسرو کے نام سے پکارا۔ اسے پہلے پارس کے تمام امیروں نے اپنا فرماں روا تسلیم کرلیا۔ پھر بغیر کسی خوں ریزی کے میڈیا کی مملکت پر فرماں روا ہوگیا اور اس طرح دونوں مملکتوں نے ملکر ایران کی ایک عظیم الشان شہنشاہی کی صورت اختیار کرلی۔ پھر اس کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا، وہ فتوحات نہیں جو ظلم وقہر کی خوں ریزی کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی تھیں بلکہ انسانیت و عدالت کی فتوحات جو تمام تر اس لیے تھیں کہ مظلوم قوموں کی داد رسی اور پامال ملکوں کی دستگیری ہو۔ چنانچہ ابھی بارہ برس کی مدت بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ بحر اسوس سے لے کر بکڑیا (باختر) تک ایشیا کی تمام عظیم الشان مملکتیں اس کے آگے سربسجود ہوچکی تھیں۔ ابتدائی زندگی : دنیا کی تمام غیر معمولی شخصیتوں کی طرح سائرس کے ابتدائی حالات نے بھی ایک ہراسرار افسانہ کی نوعیت اختیار کرلی ہے۔ اور ہمیں اس کی جھلک شاہنامہ کے افسانوں میں صاف صاف نظر آجاتی ہے۔ اس کا اٹھان زندگی کے عام اور معمولی حالات میں نہیں ہوا بلکہ ایسے عجیب حالات میں جو ہمیشہ پیش نہیں آتے اور جب کبھی پیش آتے ہیں تو یہ قدرت کی ایک غیر معمولی کرشمہ سنجی ہوتی ہے۔ قبل اس کے کہ وہ پیدا ہو اس کے نانا اسٹیاگس (Astyages) نے اس کی موت کا سامان کردیا تھا لیکن وہ ایک حیرت انگیز طریقہ پر بچا لیا جاتا ہے اور اس کی ابتدائی زندگی جنگلوں اور پہاڑوں میں بسر ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس کی غیر معمولی قابلیتیں اور اعلی اخلاق و خصائل اسے ملک میں نمایاں کرتے ہیں اور اس کی خاندانی شخصیت پہچان لی جاتی ہے۔ اب اسے پورا موقع حاصل تھا کہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے لیکن اسے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا خیال نہیں گزرتا۔ حتی کہ خود اسٹیاگس کی زندگی بھی اس کے ہاتھوں محفوظ رہتی ہے۔ لیڈیا کی فتح : تخت نشینی کے بعد سب سے پہلی جنگ جو اسے پیش آئی وہ لیڈیا (Lydia) کے بادشاہ کروئسیس (Croesus) سے تھی۔ لیکن تمام مورخین متفق ہیں کہ حملہ کروئسیس کی طرف سے ہوا تھا، اور اس نے سائرس کو دفاع پر مجبور کردیا تھا۔ لیڈیا سے مقصود ایشیائے کو چک کا مغرب اور شمالی حصہ ہے جو یونانی تمدن کا ایشیائی مرکز بن گیا تھا اور اس کی حکومت بھی اپنے تمام خصائص میں ایک یونانی حکومت تھی۔ جنگ میں سائرس فتح یاب ہوا۔ لیکن رعایا کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی نہیں کی گئی۔ انہیں محسوس بھی نہیں ہوا کہ ملک ایک انقلاب جنگ کی حالت سے گزر رہا ہے۔ البتہ کروئسیس کی نسبت یونانی روایت یہ ہے کہ اس کے عزم و ہمت کی آزمائش کے لیے سائرس نے حکم دیا تھا، چتا تیار کی جائے اور اسے جلا دیا جائے لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ مردانہ وار چتا پر بیٹھ گیا تو فورا اس کی جاں بخشی کردی اور اس نے بقیہ زندگی عزت و احترام کے ساتھ بسر کی۔ مشرقی فتوحات : اس جنگ کے بعد اسے مشرق کی طرف متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈروسیا (مکران) اور بکٹریا (بلخ) کے وحشی قبائل نے سرکشی کی تھی۔ یہ مہم ٥٤٥ اور ٥٤٠ قبل مسیح کی درمیان مدت میں واقع ہوئی ہوگی۔ فتح بابل : تقریبا یہی زمانہ ہے جب باشندگان بابل نے اس سے درخواست کی ہے کہ بیل شازار (Beslshazzar) کے مظالم سے انہیں نجات دلائے۔ نینوی کی تباہی نے ایک نئی بابلی شہنشاہی کی بنیادیں استوار کردی تھیں اور نبو کدرزار (بخت نصر) کی قاہرانہ فتوحات نے تمام مغربی ایشیا کو مسخر کرلیا تھا۔ اس کا حملہ بیت المقدس تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے۔ وہ صرف بادشاہ کو مسخر ہی نہیں کرتا تھا بلکہ قوموں کو غلام بناتا اور ملکوں کو تباہ کر ڈالتا تھا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی جو اس کی جنگ جو یا یا نہ قوتوں کی جانشیں ہوتی۔ اس کے بعد بابل کے مندروں کے پچاریوں نے (جو ملک میں سب سے زیادہ اثر و مقبولیت رکھتے تھے) نابونی دس (Nabonidus) کو تخت نشین کیا تھا لیکن اس نے حکومت کا تمام کاروبار بیل شازار کے ہاتھ چھوڑ دیا جو ظلم و عیاشی کا مجسمہ تھا۔ اسی کی نسبت دانیال نبی کے صحیفہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ بیت المقدس کے ہیکل کے مقدس پیالوں میں اس نے شراب پی تھی اور ایک غیبی ہاتھ نے نمایاں ہو کر منے منے تقیل و فرسین کے الفاظ دیوار پر لکھ دیے تھے۔ (دانیال : ١: ٥) تمام مورخین متفق ہیں کہ اس عہد میں بابل سے زیادہ مستحکم اور ناقابل فتح کوئی شے نہ تھی اس کی چار دیواری اتنی موٹی، نہ در تہ اور اوانچی تھی کہ اسے مسخر کرنے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بایں ہمہ سائرس نے باشندگان بابل کی فریاد پر لبیک کہا اور دو آبہ کا تمام علاقہ فتح کرتا ہوا شہر کے سامنے نمودار ہوگیا۔ چونکہ خود باشندگان شہر بیل شازار کے مظالم سے تنگ آگئے تھے اور سائرس کے لیے چشم براہ تھے اس لیے انہوں نے ہر طرحح اس کا ساتھ دیا۔ خود بابلی مملکت کا ایک سابق گورنر گوب ریاس (Gobryas) اس کی فوج کے ساتھ تھا۔ ہیروڈوٹس کا بیان ہے اسی شخص نے دریا میں نہریں کاٹ کر اس کا بہاؤ دوسری طرف ڈال دیا اور دریا کی جانب سے فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ قبل اس کے کہ خود سائرس شہر میں پہنچے شہر فتح ہوچکا تھا۔ بنی اسرائیل کی رہائی اور ہیکل کی تعمیر : تورات کی شہادت یہ ہے کہ سائرس کا ظہور بابل کی فتح بنی اسرائیل کے لیے زندگی و خوشحالی کا نیا پیام تھا اور یہ ٹھیک اسی طرح ظہور میں آئی جس طرح یسعیاہ نبی نے ایک سو ساٹھ برس پہلے اور یرمیاہ نے ساٹھ برس پہلے وحی الہی سے مطلع ہو کر خبر دے دی تھی۔ چنانچہ سائرس نے دنیال نبی کی نہایت توقیر کی، یہودیوں کو یروثلم میں بسنے کی اجازت دے دی، نیز اپنی تمام مملکت میں اعلان کیا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ یروثلم میں اس کے لیے ایک ہیکل بناؤن (یعنی قدیم برباد شدہ ہیکل سلیمان کو از سر نو تعمیر کروں) پس تمام لوگوں کو ہر طرح کا سازو سامان اس کے لیے مہیا کرنا چاہیے۔ اس نے سونے چاندی کے وہ تمام ظروف جو نیوکدرزار ہیکل سے لوٹ کر لایا تھا بابل کے خزانہ سے نکلوائے اور یہودیوں کے ایک امیر شیش بضر کے حوالے کردیے کہ ہیکل کی تعمیر کے بعد اس میں بدستور رکھ دیئے جائیں۔ (عزرا۔ باب اول) بابل کی فتح کے بعد سائرس کی عظمت تمام مغربی ایشیا میں مسلم ہوگئی۔ ٥٣٩ قبل مسیح میں صرف اسی تنہا شخصیت عظمت و حکمرانی کے عالمگیر تخت پر نمایاں نظر آتی ہے۔ بارہ برس پہلے وہ پارس کے پہاڑوں کا ایک گمنام انسان تھا لیکن اب ان تمام مملکتوں کا تنہا فرمانروا ہے جو صدیوں تک قوموں کی ابتدائی عظمتوں اور فتح مندیوں کا مرکز رہ چکی ہیں۔ فتح بابل کے بعد وہ تقریبا دس برس تک زندہ رہا اور ٥٣٩ قبل مسیح میں انتقال کرگیا۔ سائرس کے ظہور کی پیشین گوئیاں : اب قبل اس کے کہ قرآن کے بیان کردہ حالات پر نظر ڈالی جائے اس بات پر غور کرلینا چاہیے کہ انبیائے بنی اسرائیل کی پیشین گوئیاں اس شخصیت کے بارے میں کیا تھیں اور یہودیوں کے اعتقاد میں کس طرح وہ حرف بہ حرف پوری ہوئیں؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے پیشین گوئی یسعیاہ نبی کی ہے جن کا ظہور سائرس کے فتح بابل سے ایک سو ساٹھ برس پہلے ہوا تھا۔ انہوں نے پہلے بیت المقدس کی تباہی کی خبر دی ہے کہ بابل کے ہاتھوں ظہور میں آئے گی۔ اس کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کی بشارت دی ہے اور اس سلسلہ میں خورس (سائرس) کے ظہور کا ذکر کیا ہے : خداوند تیرا نجات دینے والا یوں فرماتا ہے کہ یروثلم پھر آباد کیا جائے گا۔ْ یہودا کے شہر بنائے جائیں گے، میں اس کے ویران مکانوں کو تعمیر کروں گا، میں خورس کے حق میں کہتا ہوں کہ وہ میرا چرواہا ہے، وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا، خداوند اپنے مسیح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا تاکہ قوموں کو اس کے قابو میں کردوں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا دوں اور دہرے دروازے اس کے لیے کھول دوں۔ ہاں میں تیرے آگے چلوں گا۔ میں ٹیڑھی جگہوں کو سیدھا کروں گا۔ میں پیتل کے دروازوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ میں گڑھے ہوئے خزانے اور چھپے ہوئے مکانوں کے گنج تجھے عطا کروں گا۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کروں گا تاکہ تو جان لے کہ میں خداوند اسرائیل کا خدا ہوں جس نے اپنی برگزیدہ قوم اسرائییل کے لیے تجھے تیرا نام صاف صاف لے کے بلایا ہے۔ (یسعیاہ : ٢٤: ٢١) اس پیشین گوئی میں خدا کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ خورس (سائرس) میرا چرواہا ہوگا اور میں نے اسے اس لیے پکارا ہے کہ بنی اسرائیل کو بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے، نیز اسے خدا کا مسیح بھی کہا ہے۔ اسی طرح یرمیاہ نبی نے ساٹھ برس پہلے پیشین گوئی کی تھی قوموں کے درمیان منادی کردو اور اسے مت چھپاؤ، تم کہو، بابل لے لیا گیا، بعل رسوا ہوا، مردوک سراسیمہ کیا گیا، اس کے بت حجل ہوئے، اس کی مورتیں پریشان کی گئیں، کیونکہ اتر سے ایک قوم اس پر چڑھتی ہوئی آرہی ہے جو اس کی سرزمین اجاڑ دے گی یہاں تک کہ اس میں کوئی نہیں رہے گا۔ (١: ٥٠) یرمیان نبی نے اس کی بھی پیشین گوئی کردی تھی کہ ستر برس تک یہودی بابل میں قید رہیں گے اور اس کے بعد بیت المقدس کی نئی تعمیر ہوگئی۔ خداوند کہتا ہے۔ جب بابل پر ستر برس گزر چکیں گے تو میں تمہاری خبرلینے آؤں گا۔ تب تم مجھے پکارو گے اور میں جواب دوں گا۔ تم مجھے ڈھونڈو گے اور مجھے پالو گے۔ میں تمہاری اسیری ختم کردوں گا۔ تمہیں مکانوں میں واپس لے آؤں گا۔ (١٠: ٢٩) اس پیشین گوئی میں خدا نے اپنی رحمت کی واپسی کو فتح بابل کے واقعہ سے وابستہ کردیا ہے۔ گویا سائرس کا ظہور اس کی رحمت کا ظہور ہوگا جو بنی اسرائیل پر پھر لوٹ آئے گی۔ پیشین گوئیوں کی تاریخی حیثیت : تورات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب سائرس نے بابل فتح کیا تو دانیال نبی نے (جو شاہان بابل کے وزرا میں داخل ہوگئے تھے) اسے یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی دکھائی کہ ایک سو ساٹھ برس پہلے اس کے ظہور کی خبر دے دی گئی تھی، یہ بات دیکھ کر وہ بے حد متاثر ہوا اور بیان کیا جاتا ہے کہ اسی کا نتیجہ وہ فرمان تھا جو اس نے تعمیر ہیکل کے لیے جاری کیا۔ زمانہ حال کے نقادان پیشین گوئیوں کی اصلیت پر مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ پیشین گوئیاں واقعات کے ظہور کے بعد بڑھا دی گئی ہوں۔ خصوصیا یسعیاہ کی پیشین گوئی جس میں صریح خورس (سائرس) کا نام موجود ہے۔ لیکن وہ اس اشتباہ کی تائید میں عقلی استغراب کے سوا اور کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے اور محض عقلی استغراب ان صحائف کے خلاف حجت نہیں ہوسکتا جن کی نسبت یقین کیا گیا ہے کہ الہام سے لکھے گئے تھے۔ علاوہ بریں تورات کے آخری صحائف جو فتح بیت المقدس کے اثنا میں یا اسیری بابل کے زمانے میں لکھے گئے ہیں۔ تاریخی حیثیت سے محفوظ تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ کیونکہ وہ اس وقت سے برابر یہودیوں میں متداول رہے اور کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا کہ ان کے نسخے نابود ہوگئے ہوں۔ ممکن ہے کہ یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی میں بھی دانیال نبی کے خواب کی طرح خورس کا نام نہ بتلایا گیا ہو۔ صرف قوم و ملک کا ذکر ہو اور بعد کو یہ نام بڑھا دیا گیا ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد برابر یہی رہا کہ سائرس کا ظہور نبیوں کی پیشین گوئی کے مطابق ہوا تھا۔ اور وہ خدا کی ایک پسندیدہ ہستی تھی جو اسی لیے پیدا کی گئی تھی کہ مظلوموں کی داد رسی ہو اور بابلیوں کے ظلم و شرارت سے قوموں کو نجات ملے۔ قرآن کی تصریحات اور سائرس : اب غور کرو۔ قرآن کی تصریحات نے جو جامہ تیار کیا ہے وہ کس طرح ٹھیک ٹھیک صرف سائرس ہی کے جسم پر راست آتا ہے؟ ہم نے اس مبحث کے آغاز میں تصریحات قرآنی کا خلاصہ دے دیا ہے جو سات دفعات پر مشتمل ہیں۔ ان پر پھر ایک نظر ڈال لو۔ سب سے پہلے اس بات پر غور کرو کہ ذوالقرنین کی نسبت سوال بالاتفاق یہودیوں کی جانب سے ہوا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ اگر کسی غیر یہودی بادشاہ کی شخصیت یہودیوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھ جاسکتی تھی تو وہ صرف سائرس ہی کی تھی۔ نبیوں کی پیشین گوئیوں کا مصداق، دانیال نبی کے خواب کا ظہور، رحمت الہی کی واپسی کی بشارت، بنی اسرائیل کا نجات دہندہ، خدا کا فرستادہ چرواہا اور مسیح، یروشلم کی تعمیر ثانی کا وسیلہ۔ پس اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسی کی نسبت ان کا سوال ہو؟ سدی کی ایک روایت میں بھی جو قرطبی وغیرہ نے نقل کی ہے اس طرف صریح اشارہ ملتا ہے۔ قال، قالت الیھود، اخبر عن نبی لم یذکرہ اللہ فی التورات الا فی مکان واحد، قال ومن ؟ قالوا ذوالقرنین۔ یعنی یہودیوں نے آنحضرت سے کہا۔ اس نبی کی نسبت ہمیں خبر دیجیے جس کا نام تورات میں صڑف ایک ہی مقام پر آیا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کون؟ کہا ذوالقرنین، چونکہ سائرس کے ذوالقرنین ہونے کا اشارہ صرف دانیال نبی کے خواب ہی میں آیا ہے اس لیے یہودیوں کا یہ بیان ٹھیک ٹھیک اسی طرف اشارہ تھا۔ علاہ بریں سائرس کے تمثال کے انکشاف نے قطعی طور پر یہ بات آشکارا کردی ہے کہ اس کے سر پر دو سینگوں کا تاج رکھا گیا تھا اور یہ فارس اور مادہ کی مملکتوں کے اجتماع و اتحاد کی علامت تھی۔ تفسیر (انا مکنا لہ فی الارض) اس کے بعد قرآن کی تصریحات سامنے لاؤ۔ سب سے پہلا وصف جو اس کا بیان کیا ہے یہ ہے کہ (انا مکنا لہ فی الارض واتینہ من کل شیء سببا) ہم نے اسے زمین میں قدرت دی تھی اور ہر طرح کا سازوسامان مہیا کردیا تھا۔ قرآن جب کبھی انسان کی کسی کامرانی و خوشحالی کو براہ راست خدا کی طرف منسوب کر کے کہتا ہے جیسا کہ یہاں کہا ہے تو اس سے مقصود عموما کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو عام حالات کے خلاف محض اس کے فضل و کرم سے ظہور میں آئی ہو۔ مثلا حضرت یوسف کی نسبت فرمایا (وکذلک مکنا لیوسف فی الارض) اس طرحح ہم نے سرزمین مصر میں یوسف کو حکومت دے دی، ہم نے دے دی، کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کو ہر طرح کے ناموافق حالات میں محض فضل الہی سے ایک غیر معمولی بات حاصل ہوگئی تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ عام حالات کے مطابق ظہور میں آئی ہو۔ پس ضروری ہے کہ ذوالقرنین کو بھی حکمرانی کا مقام ایسے ہی حالات میں ملا ہو جو بالکل غیر معمولی قسم کے ہوں اور انہیں محض توفیق الہی کی کرشمہ سازی سمجھا جاسکے۔ کیونکہ اس کے تمکن فی الارض کو براہ راست خدا کی طرف نسبت دی ہے۔ لیکن اس اعتبار سے سائرس کی زندگی ٹھیک ٹھیک اس آیت کی تصویر ہے اس کی ابتدائی زندگی ایسے حالات میں بسر ہوئی جنہیں حیرت انگیز حوادث نے ایک افسانہ کی شکل دے دی ہے۔ قبل اس کے کہ پیدا ہو خود اس کا نانا اس کی موت کا خواہشمند ہوگیا تھا۔ ایک وفادادر آدمی اس کی زندگی بچاتا ہے اور وہ شاہی خاندان سے بالکل الگ ہو کر ایک گمنام گڈریے کی طرح پہاڑوں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ پھر اچانک نمایاں ہوتا ہے اور بغیر کسی جنگ و مقابلہ کے میڈیا کا تخت اس کے لیے خالی ہوجاتا ہے۔ یقینا یہ صورت حال واقعات و حوادث کی عام رفتار نہیں ہے جو ہمیشہ پیش آتی ہو۔ نوادر ہستی کی ایک غیر معمولی عجائب آفرینی ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ قدرت کا مخفی ہاتھ کس خاص مقصد سے ایک خاص ہستی تیار کر رہا ہے اور زمانہ کی عام رفتار تھم گئی ہے تاکہ اس کی راہ صاف ہوجائے۔ تین مہمیں : اس کے بعد اس کی تین بڑی مہموں کا ذکر آتا ہے۔ ایک مغرب الشمس کی طرف یعنی پچھم کی طرف، ایک مطلع الشمس کی طرف یعنی پورپ کی طرف۔ تیسری ایک ایسے مقام تک جہاں کوئی وحشی قوم آباد تھی اور یاجوج اور ماجوج وہاں آکر لوٹ مار مچایا کرتا تھا اب دیکھو یہ تمام تفصیلات کس طرح ٹھیک ٹھیک سائرس کی فتوحات پر منطبق ہوتی ہیں؟ مغربی مہم : اوپر پڑھ آئے ہو کہ سائرس نے ابھی فارس اور میڈیا کا تاج سر پر رکھا ہی تھا کہ ایشیائے کو چک کے باداہ کروئسس نے حملہ کریا۔ ایشائے کو چک کی یہ بادشاہت جو لیڈیا کے نام مشہور ہوئی پھچلی صدی کے اندر ابھری تھی، اس کا دار الحکومت سارڈیس (Sarrdis) تھا۔ سائرس کی تخت نشینی سے پہلے میڈیا اور لیڈیا میں کئی جنگیں ہوچکی تھیں، بالآخر کروئسس کے باپ نے سائرس کے ننا اسٹیاگس کے باپ سے صلح کرلی اور باہمی اتحاد کے استحکام کے لیے باہمی ازدواج کا رشتہ قائم ہوگیا۔ لیکن کروئسس نے یہ تمام عہدو پیمان اور باہمی علائق بھلا دیے۔ وہ سائرس کی یہ کامرانی برداشت نہ کرسکا کہ فارس اور میڈیا کی مملکتیں متحد ہو کر ایک عظیم مملکت کی حیثیت اختیار کر رہی ہیں، اس نے پہلے بابل، مصر اور اسپارٹا کی مملکتوں کو اس کے خلاف ابھارا اور پھر اچانک حملہ کر کے سرحدی شہر پیٹریا (Pteria) پر قبضہ کرلیا۔ اب سائرس مجبور ہوگیا کہ بلاتوقف اس حملہ کا مقابلہ کرے، وہ میڈیا کے دار الحکومت ہگ متانہ سے (جو اب ہمدان کے نام سے پکارا جاتا ہے) نکلا اور اس تیزی کے ساتھ بڑھا کہ صرف دو جنگوں کے بعد جو پیٹریا اور سارڈیس کے قریب واقع ہوئی تھیں لیڈیا کی تمام مملکت پر قابض ہوگیا۔ ہیرو ڈوٹس نے اس جنگ کی سرگزشت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے اور اس کی بعض تفصیلات نہایت دلچسپ اور اہم ہیں لیکن یہ موقع اطناب کا نہیں۔ وہ کہتا ہے سائرس کی فتح مندی ایسی عجیب اور معجزانہ تھی کہ پیٹریا کے معرکہ کے بعد صرف چودہ دن کے اندر لیڈیا کا مستحکم دار الحکومت مسخر ہوگیا اور کروئسس ایک جنگی قیدی کی حیثیت میں سائرس کے آگے سرنگوں کھڑا تھا۔ وجدھا تغرب فی عین حمئۃ: اب تمام ایشیائے کو چک بحر شام سے لے کر بحر اسود تک اس کے زیر نگین تھا۔ وہ برابر بڑھتا گیا، یہاں تک کہ مغربی ساحل تک پہنچ گیا، قدرتی طور پر اس کے قدم یہاں پہنچ کر اسی طرح رک گئے جس طرح بارہ سو سال بعد طارق کے قدم افریقہ کے شمالی ساحل پر رک جانے والے تھے۔ اس کے فتح مند قدموں کے لیے صحراؤں کی وسعتیں اور پہاڑوں کی بلندیاں روک نہ ہوسکیں، اس نے فارس سے لے کر لیڈیا تک چودہ سو میل کا فاصلہ طے کرلیا تھا لیکن سمندر کی موجوں پر چلنے کے لیے اس کے پاس کوئی سواری نہ تھی، اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حد نظر تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا اور سورج اس کی لہروں میں ڈوب رہا تھا۔ یہ لشکر کشی جو اسے پیش آئی، صریح مغرب کی لشکر کشی تھی، کیونکہ وہ ایران سے مغرب کی طرف چلا اور خشکی کے مغربی کنارہ تک پہنچ گیا۔ یہ اس کے لیے مغرب الشمس کی آخری حد تھی۔ ایشیائے کو چک کا مغربی ساحل نقشہ میں نکالو تم دیکھو گے کہ تمام ساحل اس طرح کا واقع ہوا ہے کہ چھوٹے چھوٹے خلیج پیدا ہوگئے ہیں اور سمرنا کے قریب اس طرح کے جزیرے نکل آئے ہیں، جنہوں نے ساحل کو ایک جھیل یا حوض کی سی شکل دے دی ہے لیڈیا کا دار الحکومت سارڈیس مغربی ساحل کے قریب تھا اور اس کا محل موجودہ سمرنا سے بہت زیادہ فاصلہ پر نہ تھا۔ پس جب سائرس سارڈیس کی تسخیر کے بعد آگے بڑھا ہوگا تو یقینا بحرا یجبین کے اسی ساحلی مقام پر پہنچا ہوگا جو سمرنا کے قرب و جوار میں واقع ہے۔ یہاں اس نے دیکھا ہوگا کہ سمندر نے ایک جھیل کی سی شکل اختیار کرلی ہے، ساحل کے کیچڑ سے پانی گدلا ہورہا ہے، اور شام کے وقت اسی میں سورج ڈوبتا دکھائی دیتا ہے۔ اسی صورت حال کو قرآن نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ (وجدھا تغرب فی عین حمئۃ) اسے ایسا دکھائی دیا کہ سورج ایک گدلے حوض میں ڈوب رہا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ سورج کسی مقام میں بھی ڈوبتا نہیں لیکن ہم سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ ایک سنہری تھا لی آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہی ہے۔ مشرق مہم : دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی۔ چنانچہ ہیوڈٹس اور ٹی سیاز دونوں اس کی مشرق لشکر کشی کا ذکر کرتے ہیں جو لیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے پہلے پیش آئی تھی اور دونوں نے تصریح کی ہے کہ مشرق کے بعض وحشی اور صحرا نشین قبائل کی سرکشی اس کا باعث ہوئی تھی۔ یہ ٹھیک ٹھیک قرآن کے اس اشارہ کی تصدیق ہے کہ (حتی اذا بلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم من دونھا سترا) جب وہ مشرق کی طرف پہنچا تو اسے ایسی قوم ملی جو سورج کے لیے کوئی آڑ نہیں رکھتی تھی۔ یعنی خانہ بدوش قبائل تھے۔ یہ خانہ بدوش قبائل کون تھے؟ ان مورخین کی صراحت کے مطابق بکڑیا یعنی بلغ کے علاقہ کے قبائل تھے۔ نقشہ پر اگر نظر ڈالو گے تو صاف نظر آجائے گا کہ بکٹریا ٹھیک ٹھیک ایران کے لیے مشرق اقصی کا حکم رکھتا ہے کیونکہ اس کے آگے پہاڑ ہیں اور انہوں نے راہ روک دی ہے۔ اس کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ گیڈروسیا کے وحشی قبیلوں نے اس کی مشرقی سرحد میں بدامنی پھیلائی تھی اور ان کی گوشمالی کے لیے اسے نکلنا پڑا۔ گیڈروسیا سے مقصود وہی علاقہ ہے جو آج کل مکران کہلاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کی طرف ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ اس لیے قیاس کہتا ہے کہ مکران سے نیچے اس کے قدم نہیں اترے ہوں گے۔ اور اگر اترے ہوں گے تو دریائے سندھ سے آگے نہیں بڑھے ہوں گے۔ کیونکہ دارا کے زمانہ میں بھی اس کی جنوب مشرقی سرحد دریائے سندھ ہی تک معلوم ہوتی ہے۔ شمالی مہم : تیسری لشکر کشی اس نے ایسے علاقہ تک کی جہاں یاجوج ماجوج کے حملے ہوا کرتے تھے یہ یقینا اس کی شمالی مہم تھی جس میں وہ بحر خزر (کاسپین) کو داہنی طرف چھوڑتا ہوا کا کیشیا (Causcasus) کے سلسلہ کوہ تک پہنچ گیا تھا اور وہاں اسے ایک درہ ملا تھا جو دو پہاڑی دیواروں کے درمیان تھا، اسی راہ سے یاجوج ماجوج آکر اس طرف کے علاقہ میں تاخت و تاراج کیا کرتے تھے اور یہیں اس نے سد تعمیر کی۔ قرآن نے اس مہم کا حلا ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ (حتی اذا بلغ بین السدین وجد من دونھما قوما لا یکادون یفقھون قولا) یہاں تک کہ وہ دو (پہاڑی) دیواروں کے درمیان پہنچ گیا۔ ان کے اس طرف اسے ایک قوم ملی جو کوئی بات بھی سمجھ نہیں سکتی تھی۔ پس صاف معلوم ہوتا ہے سدین سے مقصود کا کیشیا کا پہاڑہ درہ ہے۔ کیونکہ اس کے داہنی طرف بحر خرز ہے جس نے شمال اور مشرق کی راہ روک رکھی ہے۔ بائیں جانب بحر اسود ہے جو شمال مغرب کے لیے قدرتی روک ہے۔ درمیانی علاقے میں اس کا سربفلک سلسلہ کوہ ایک قدرتی دیوار کا کام دے رہا ہے۔ پس اگر شمالی قبائل کے حملوں کے لیے کوئی راہ باقی رہی تھی تو وہ صرف اس سلسلہ کوہ کا ایک عریض درہ یا واسطی وادی تھی اور یقینا وہیں سے یاجوج ماجوج کو دوسری طرف پہنچنے کا موقع ملتا تھا۔ اس راہ کے بند ہوجانے کے بعد نہ صڑف بحر خزر سے لے کر بحر اسود تک کا علاقہ محفوظ ہوگیا بلکہ سمندروں اور پہاڑوں کی ایک ایسی دیوار قائم ہوگئی جس نے تمام مغربی ایشیا کو اپنی پاسبانی میں لے لیا اور شمال کی طرف سے حملے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا اب ایران، شام، عراق، عرب۔ ایشیائے کو چک، بلکہ مصر بھی شمال کی طرف سے بالکل محفوظ ہوگیا تھا۔ نقشہ میں یہ مقام دیکھو، تمام مغربیا یشیا نیچے ہے اوپر شمال میں بحر خزر ہے اس سے بائیں جانب شمال مغرب میں بحر اسود ہے۔ درمیان میں بحر خزر کے مغربی ساحل سے بحر اسود کے مشرقی ساحل تک کا کیشیا کا سلسلہ کوہ چلا گیا ہے۔ ان دو سمندروں اور درمیانکے سلسلہ کوہ نے ملکر سینکڑوں میلوں تک ایک قدرتی روک پیدا کردی ہے۔ اب اس روک میں اگر کوئی شگاف رہا گیا تھا جہاں سے شمالی اقوام کے قدم اس روک کو پھلانگ سکتے تھے تو وہ صڑف یہی دو پہاڑوں کے درمیان کی راہ تھی۔ ذوالقرنین نے اسے بھی بند کردیا اور اس طرح شمال اور مغربی ایشیا کا یہ درمیانی پھاٹک پوری طرح مقفل ہوگیا۔ شمالی قوم : باقی رہا یہ سوال کہ وہاں جو قوم ذوالقرنین کو ملی تھی اور جو بالکل ناسمجھ تھی وہ کون سی قوم تھی؟ تو اس سلسلہ میں دو قومیں نمایاں ہوتی ہیں اور دونوں کا اس زمانہ میں وہاں قریب قریب آباد ہونا تاریخ کی روشنی میں آچکا ہے۔ پہلی قوم وہ ہے جو بحر خزر کے مشرقی ساحل پر آباد تھی اسے یونانی مورخوں نے کا سپین کے نام سے پکارا ہے اور اسی کے نام سے بحر خزر کا نام بھی کا سپین پڑگیا ہے۔ دوسری قوم وہ ہے جو اس مقام سے آگے بڑھ کر عین کا کیشیا کے دامن میں آباد تھی۔ یونانیوں نے اسے لوجی یا کول شی کے نام سے پکارا ہے۔ اور دارا کے کتبہ اصطخر میں اس کا نام کوشیہ آیا ہے۔ انہی دو قوموں میں سے کسی نے یا دونوں قوموں نے ذوالقرنین سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی ہوگی، اور چونکہ یہ غیر متمدن قومیں تھیں اس لیے ان کی نسبت فرمایا کہ (لایکادون یفقھون قولا) سائرس کے غیر معمولی فضائل : اس کے بعد ذوالقرنین کا جو وصف سامنے آتا ہے وہ اس کی عدالت گستری اور خدمت انسانی کی فیاضانہ سرگرمی ہے اور یہ اوصاف سائرس کی تاریخی سیرت کی اس درجہ آشکارا حقیقتیں ہیں کہ مورخ کی نگاہ کسی دوسری طرف اٹھ ہی نہیں سکتی۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے مغرب میں جو قوم ملی تھی اس کی نسبت حکم الہی ہوا تھا : (یذا القرنین اما ان تعذب واما ان تتخذ فیھم حسنا) یعنی یہ قوم اب تیرے بس میں ہے جس طرح چاہے تو اس کے ساتھ سلوک کرسکتا ہے۔ خواہ سزا دے، خواہ انہیں اپنا دوست بنا لے، یقینا یہ لیڈیا کی یونانی قوم تھی، اس کے بادشاہ کروئسس نے تمام عہد وپیمان اور باہمی رشتہ داریاں بھلا کر بلا وجہ سائرس پر حملہ کردیا تھا اور صرف خود ہی حملہ آور نہیں ہوا تھا بلکہ وقت کی تمام طاقتور حکومتوں کو بھی اس کے خلاف ابھار کر اپنے ساتھ کرلیا تھا۔ اب جب تائید الہی نے اپنا کرشمہ دکھایا اور تمام لیڈیا مسخر ہوگیا تو حکم الہی ہوا۔ یہ لوگ بالکل تیرے رحم پر ہیں، تو جو چاہے ان کے ساتھ کرسکتا ہے کیونکہ یہ اپنے ظلم و شرارت کی وجہ سے ہر طرح دزا کے مستحق ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ تائید الہی نے تیرا ساتھ دیا۔ دشمنوں کو مسخر کردیا۔ اب وہ بالکل تیرے اختیار میں ہیں لیکن تجھے بدلہ نہیں لینا چاہیے۔ وہی کرنا چاہیے، وج نیکی و فیاضی کا مقتضا ہے۔ چنانچہ ذوالقرنین نے ایسا ہی کیا : (قال اما من ظلم فسوف نعذبہ ثم یرد الی ربہ فیعذبہ عذابا نکرا۔ واما من امن وعمل صالحا فلہ جزاء ن الحسنی وسنقول لہ من امرنا یسرا) اس نے اعلان کیا کہ میں پچھلے جرم کی بنا پر کسی کو سزا نہیں دینا چاہتا۔ میری جانب سے عام بخشش کا اعلان ہے، البتہ آئندہ جو کوئی برائی کرے گا بلاشبہ اسے سزا دوں گاْ پھر اسے مرنا ہے اور آخرت کا عذاب سخت جھیلنا ہے۔ اور جو لوگ میرے احکام مانیں گے اور نیک کردار ثابت ہوں گے تو ان کے لیے ویسا ہی بہتر اجر بھی ہوگا اور وہ میرے احکام بھی بہت آسان پائیں گے، میں بندگان خدا پرستی کرنا نہیں چاہتا، یہ ہو بہو اس طرز عمل کی تعبیر ہے جس کی تفصیل ہمیں یونانی تاریخوں کے صفحات میں ملتی ہے اور جسے زمانہ حال کے تمام محققین تاریخ نے ایک مسلمہ تاریخی حقیقت تسلیم کرلیا ہے۔ تمام یونانی مورخ بالاتفاق شہادت دیتے ہیں کہ سائرس نے فتح کے بعد باشندگان لیڈیا کے ساتھ جو سلوک کیا وہ صرف منصفانہ ہی نہ تھا، وہ اس سے بھی زہاد تھا، وہ فیاضانہ تھا، وہ اگر اپنے دشمنوں کے ساتھ سختی کرتا، تو یہ انصاف ہوتا کیونکہ زیادتی انہی کی تھی۔ لیکن وہ صرف منصف ہونے پر قانع نہیں ہوا۔ اس نے رحم و بخشش کا شیوہ اختیار کیا، ہیروڈوٹس لکھتا ہے سائرس نے اپنی فوج کو حکم دے دیا تھا کہ دشمن کی فوج کے سوا اور کسی انسان پر ہتھیار نہ اٹھائیں اور دشمن کی فوج میں سے بھی جو کوئی نیزی جھکا دے اسے ہرگز قتل نہ کیا جائے۔ کروئسس شاہ لیڈیا کی نسبت صریح حکم تھا کہ کسی حال میں بھی اسے گزند نہ پہنچائی جائے۔ اگر وہ مقابلہ کرے جب بھی اس پر تلوار نہیں اٹھانی چاہیے۔ اس حکم کی فوج نے اس دیانت داری کے ساتھ تعمیل کی کہ باشندوں کو جنگ کی مصیبت ذرا بھی محسوس نہ ہوئی۔ یہ گویا محض فرماں روا خاندان کا ایک شخص انقلاب تھا کہ کروئسس کی جگہ سائرس نے لے لی۔ اس سے زیادہ کوئی انقلاب ملک و قوم کو محسوس ہی نہیں ہوا۔ کروئسس کا واقعہ اور یونانی روایت : یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سائرس کی فتح یونانی دیوتاؤں کی شکت تھی، کیونکہ وہ اس مصیبت سے اپنے پرستار کروئسس کو نہ بچا سکی، حالانکہ حملہ سے پہلے اس نے مندروں کے ہاتف سے استصواب کرلیا تھا، اور ڈلفی کے ہاتف نے فتح و کامرانی کی بشارت دی تھی۔ پس قدرتی طور پر واقعات کی یہ رفتار یونانیوں کے لیے خوشگوار نہ ہوسکی اور اس امر کی کوشش شروع ہوگئی کہ اس شکست میں بھی اخلاقی اور مذہبی فتح مندی کی شان پیدا کردی جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کروئسس کا معاملہ اچانک ایک پراسرار افسانہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یونانی دیوتا اپنے سارے معجزوں کے ساتھ نمایاں ہوجاتے ہیں۔ ہیروڈوٹس لیڈیا کے باشندوں کی یہ رویت نقل کرتا ہے کہ ڈلفی کے ہاتف کو جواب غلط نہ تھا مگر کروئسس نے جنگ کے جوش و طلب میں اس کا صحیح مطلب نہیں سمجھا۔ ہاتف نے کہا تھا اگر اس نے پارسیوں پر حملہ کیا تو وہ ایک بڑی مملکت تباہ کردے گا۔ یعنی خود اپنی مملکت تباہ کردے گا، مگر اس نے خیال کیا بڑی مملکت سے مقصود پارسیوں کی مملکت ہے۔ نیز وہ کہتا ہے پہلے سائرس نے حکم دیا تھا کہ لکڑیوں کی چتا تیار کی جائے اور اسپ کروئسس کو بٹھا کر آگ لگا دی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آگ لگا دی گئی لیکن پھر جب کروئسس کی بعض باتیں سنیں تو بے حد متاثر ہوا اور آگ بجھانے کا حکم دیا۔ لیکن اب آگ پوری طرح مشتعل ہوگئی تھی۔ ممکن نہ تھا کہ اسے بجھا دیا جائے یہ حال دیکھ رک کروئسس نے اپالو دیوتا کو پکارا اور باوجویکہ آسمان بالکل صاف تھا اچانک بارش شروع ہوگئی اور اس طرح اس معجزے نے بروقت ظاہر ہو کر اس کی جان بچالی۔ لیکن خود ہیروڈوٹس اور زینوفن کی تصریحات سے جو حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ سائرس یا تو کروئسس کے عزم و صبر کا امتحان لینا چاہتا تھا یا یہ کہ بات آشکارا کردینی چہاتا تھا کہ یونانیوں کے خود ساختہ دیوتا اپنے عبادت گزاروں کی کچھ مدد نہیں کرسکتے اور جن دیوتاؤں کی مزعومہ بشارت پر اعتماد کر کے جنگ کی گئی تھی ان میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے پرستار کو زندہ جلنے کے عذاب سے بچا لیں۔ یعنی مقصود یہ تھا کہ پہلے اسے چتا پر بٹھایا جائے، آگ بھی لگا دی جائے لیکن جب وہ خود اور تمام لوگ دیکھ لیں کہ دیوتاؤں کا کوئی معجزہ ظاہر نہیں ہوا، تو پھر اسے بخش دے اور عزت و احترام کے ساتھ اپنے ہمراہ لے جائے۔ دوسری علت زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے کہ کیونکہ خود ہیروڈٹس کی روایت میں اس کی جھلک موجود ہے، اور یونانی افسانہ میں اپالو کے معجزہ کی نومد بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ سائرس نے اپنے عمل سے جو حقیقت آشکارا کردی تھی یونانی افسانہ نے اسی کو توڑ کرنے کے لیے اپالو کا معجزہ گھڑ لیا۔