سورة الإسراء - آیت 80

وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور آپ کہئے کہ اے میرے رب ! مجھے عمدہ طریقہ سے (مدینہ) پہنچا دے (٤٩) اور مجھے عمدہ طریقہ سے (مکہ سے) رخصت کردے اور تو میرے لئے اپنے پاس سے مدد کرنے والی قوت مہیا کردے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس سورت کے بعض مقامات کی تشریحات رہ گئی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ واقعہ اسرای : واقعہ اسرای کی نوعیت کیا تھی ؟ یہ عالم بیداری میں پیش آیا یا عالم خواب میں؟ صرف روح پر طاری ہوا تھا یا جسم بھی اس میں شریک تھا۔ اس بارے میں صحابہ و سلف کا اختلاف معلوم ہے۔ اکثر صحابہ و تعابعین اس طرف گئے ہیں کہ روح و جسم دونوں پر طاری ہوا، لیکن حضرت عائشہ، حذیفہ بن الیمان، حسن، معاویہ، ابن اسحاق وغیرہم سے مروی ہے کہ یہ ایک روحانی معاملہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ انبیائے کرام کے احوال و وارات ایک ایسے عالم سے تعلق رکھتے ہیں جس کے لے ہماری عام تعبیرات کام نہیں دے سکتیں۔ ہماری ہر تعبیر کسی ایسی حالت کا تصور پیدا کردے گی جو عام طور پر ہمیں پیش آتی رہتی ہیں لیکن انبیائے کرام کو جو حالات پیش آتے ہیں، ان کی نوعیت ہی دوسری ہوتی ہے۔ وہ ہمارے محسوسات و مفہومات کے دائرہ سے باہر کے معاملات ہیں۔ خود نبوت کی حقیقت کیا ہے ؟ وحی کا معاملہ کیونکر انجام پاتا ہے ؟ کیا اس بارے میں ہماری کوئی تعبیر بھی حقیقت حال کی کامل تعبیر ہوسکتی؟ صحیحین ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب وحی آتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے صلصلۃ الجرس کی آواز ہو۔ ظاہر ہے یہ ایک تمثیل ہے جو اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ اس معاملہ کا ایک قریبی تخیل ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ ورنہ وحی کی آمد محض گھنٹیوں کی آواز کی طرح نہیں ہوسکتی۔ پس اسری کے معاملہ کے لیے بھی ہماری محدود تعبیرات کام نہیں دے سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے تاثرات مختلف ہوئے۔ جن لوگوں نے اس کی نفی کی کہ بیداری میں پیش اایا تھا وہ اس طرف گئے کہ یہ ہماری جسمانی نقل و حرکت کی طرح کا معاملہ نہ تھا۔ جن لوگوں نے اس پر زور دیا کہ بیداری میں پیش آیا تھا وہ اس طرف گئے کہ اسے محض خواب کی طرح کا معاملہ نہیں کہہ سکتے۔ اور اس میں شک نہیں دونوں اپنے تاثرات میں برسرحق تھے۔ خود صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا، میں اس وقت ایک ایسے عالم میں تھا کہ نہ تو سوتا تھا نہ جاگتا تھا۔ بین النائم والیقظان۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اس معاملہ کو نہ تو ایسا معاملہ قرار دے سکتے ہیں جیسا ہمیں جاگتے میں پیش آیا کرتا ہے، نہ ایسا جیسا سوتے میں دیکھا کرتے ہیں۔ وہ ان دونوں حالتوں سے ایک مختلف قسم کی حالت تھی اور ہماری تعبیرات میں اس کے لیے کوئی تعبیر نہیں ہے۔ اس مقام کی مزید تشریح البیان میں ملے گی۔ آیت (٦٠) (وما جعلنا الرویا التی ارینک الا فتنۃ للناس) میں رویا سے مقصود یہی واقعہ ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس، سعید بن جبیر، حسن، مسروق، قتادہ، مجاہد، عکرمہ، ابن جریج وغیرہم سے ایسا ہی مروی ہے اور حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس پر محققین تفسیر کا اجماع ہوچکا ہے۔ پس جن مفسروں نے یہاں رویا سے مراد کوئی دوسری رویا لی ہے۔ مثلا فتح مکہ کی رویا، وہ قابل اعتناء نہیں۔ کیونکہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور وہ معاملہ ایک عرسہ کے بعد مدینہ میں پیش اایا تھا، اور تطبیق کے لیے طرح طرح کے تکلفات کرنا قرآن کو چیستان بنا دینا ہے۔ ان مفسروں نے یہ تکلفات اس لیے کیے کہ رویا کہ اطلاق خواب پر ہوتا ہے، اور اگر اس رویا سے مقصود واقعہ اسری ہو تو پھر ان صحابہ کا قول تسلیم کرلینا پڑے گا جو اس کے بیداری میں ہونے کے قائل نہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر پر نظر نہ ڈالی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ان صحابہ میں ہیں جو معراج کو عالم بیداری کا معاملہ سمجھتے تھے اور اس مذہب کے سب سے بڑ؁ پیشرو تھے۔ بایں ہمہ انہوں نے بھی اس ایت میں رویا کی یہی تفسیر کی ہے کہ واقعہ اسرای مراد ہے۔ رویا عین اریھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بخاری) ایک آنکھوں سے دیکھی ہوئی رویا جو لیلۃ الاسری میں آنحضرت کو دکھائی گئی تھی۔ اگر حضرت ابن عباس کو اس آیت کی اس تفسیر میں کوئی وقت پیش نہ آئی جو اس مذہب کے سب سے بڑے قائل تھے تو پھر اور لوگوں کو کیوں دور ازکار توجہیوں کی ضرورت پیش آئے؟ اور یہ جو حضرت ابن عباس نے فرمای رویا عین اریھا تو اس نے سارا مسئلہ حل کردیا اور وہ حقیقت آشکارا ہوگئی جس کی طرف ابھی ابھی اشارہ کرچکے ہیں۔ یعنی یہ جو کچھ پیش آیا تھا تو رویا، لیکن کیسی رویا؟ ویسی ہی رویا جیسی عالم خواب میں ہم دیکھا کرتے ہیں؟ نہیں رویا عین ایسی رویا جس میں آنکھیں غافل نہیں ہوتیں۔ بیدار ہوتی ہیں، جو کچھ دیکھا جاتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے جیسے آنکھوں سے دیکھا جارہا ہو۔ (مازاغ البصر وما طغی۔ لقد رای من ایت ربہ الکبری) اعراض اور مایوسی دونوں میں ہلاکت ہے : آیت (واذا انعمنا علی الانسان اعرض ونابجانبہ واذا مسہ الشر کان یوسا) میں انسان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب اسے خوش حالی ملتی ہے تو غافل ہوجاتا ہے اور جب رنج و غم پہنچتا ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ حالانکہ دونوں حالتوں میں اس کے لیے نامرادی ہے۔ سعادت کی راہ یہ ہے کہ خوش حالی میں غافل نہ ہو، کیونکہ غفلت کا نتیجہ محرومی ہے، بدحالی میں مایوس ہو کر بیٹھ نہ رہے، کیونکہ مایوسی کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ غور کرو، طبیعت انسانی کی کیسی سچی تصویر ہے؟ انسان جب اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتا ہے تو خوشحالی کا گھمنڈا اسے غافل و سرشار کردیتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب میرے لیے کوئی کھٹکا نہیں رہا، حالانکہ نہیں جانتا کتنا ہی خوش حال ہوجائے، اگر غفلت میں پڑگیا ہے تو اس کے لیے کھٹکا ہی کھٹکا ہے۔ اس کی خوش حالیاں کبھی پائدار نہیں ہوسکتیں۔ پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں تو بجائے اس کے کہ اپنی طلب و سعی میں اور زیادہ سرگرم ہوجائے یک قلم مایوس ہوجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ اب میرے لیے کچھ نہیں رہا۔ حالانکہ نہیں جانتا کہ اس کے لیے سب کچھ ہے بشرطیکہ ہمیت نہ ہارے اور اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہ ہو۔ کتنے ہی انسان ہیں جنہوں نے خوش حالیاں پائیں لیکن ان کی خوش حالیاں بدحالیوں سے بدل گئیں کیونکہ غفلت میں پڑگئے اور خوشحالی کی قدر نہ کی۔ کتنے ہی ناکام انسان ہیں جواچانک کامیاب ہوگئے کیونکہ ناکامیاں انہیں مایوس نہ کرسکیں اور کسی حال میں بھی وہ خدا کے فضل سے نازمید نہ ہوئے۔ فی الحقیقت انسانی سعی و طلب کی ساری نامرادیاں انہی ود دروازوں سے آتی ہیں۔ غفلت اور مایوسی، کامرانیوں اور خوشحالیوں کے متوالے غفلت کے زہر سے مرتے ہیں اور ناکامیوں اور بدحالیوں کے نامراد مایوسی کے زہر سے۔ جس فرد اور گروہ نے ان دو ہلاکتوں سے اپنی نگرانی کرلی ہے اس نے فلاح و سعادت کی ساری دولتیں پالیں۔ اس کی کامرانیوں کے لیے کبھی زوال نہ ہوگا۔ اس کی سعی و طلب ضرور بار آور ہو کر رہے گی۔ مادیات کی طرح روحانیات میں بھی یہی قانون کام کر رہا ہے۔ دنیا کی طرح آخرت کی محرومیاں بھی انہی دو مہلک راہوں سے آتی ہیں۔ عابدوں اور پارساؤں کے لیے گھمنڈ میں موت ہے اور گنہگاروں کے لیے مایوسی میں۔ جو نیک و پارسا ہو کر غرور میں مبتلا ہوگیا، اس نے اپنی پارسائی کی ساری کمائی ضائع کردی۔ جو گناہوں کے بوجھ سے دب کر مایوسی میں پڑگیا اس نے رحمت الہی کی چارہ سازیوں سے اپنے کو محروم کردیا۔ جس فرد نے ان دو ہلاکتوں سے اپنی نگہداشت کرلی، پارسائی کی کمائی پر مغرور نہ ہوا، نافرمانی و گناہ کی حالت میں مایوس نہ ہوا اس نے جاودانی سعادت پالی اور اس کے لیے نامرادی کا کوئی کھٹکا باقی نہ رہا۔ تفسیر (کل یعمل علی شاکلتہ) عربی میں شکل بکسر کے معنی ہیئت کے ہیں اور شکل بالنصب کے معنی طریقہ کے۔ چنانچہ ایسے راستے کو جس سے بہت سی راہیں ادھر ادھر نکلی ہوں طریق ذو شواکل کہتے ہیں، اور بول چال میں عام طور پر کہا جاسکتا ہے : لست علی شکلی ولا علی شاکلتی۔ پس آیت (قل کل یعمل علی شاکلتہ فربکم اعلم بمن ھو اھدی سبیلا) کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں ہر انسان کا کوئی نہ کوئی طریقہ ہے اور وہ اسی کے مطابق کام کررہا ہے۔ کوئی اس طرف جارہا ہے، کوئی اس طرف، کسی نے ڈھنک اختیار کیا ہے کسی نے دوسرا۔ کسی کو ایک طرح کی بات بھاتی ہے، کسی کو دوسری طرح کی، اور اللہ جانتا ہے، کون سیدھی راہ پر ہے، کون کامیاب ہونے والا ہے۔ بعض مفسرین نے شاکلہ کو جبلت کے معنوں میں لیا ہے۔ یعنی ہر آدمی کی ایک فطری بناوٹ ہے اور وہ اسی کے لیے مطابق کام کرتا ہے، لیکن مندرجہ صدر تصریح سے واضح ہوگیا کہ شاکلہ کے معنی جبلت کے نہیں ہوسکتے۔ طریقہ اور مسلک کے ہیں۔ (قل الروح من امر ربی) ترمذی، نسائی اور مسند میں ہے کہ قریش مکہ نے علمائے یہود سے سن کر یہ سوال کیا تھا کہ روح کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری : (ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی) تورات اور انجیل میں روح کا لفظ فرشتہ کے لیے بولا گیا ہے اور قرآن نے فرشتہ اور وحی دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ پس یہاں الروح سے مقصود جسم انسانی کی روح ہے یا فرشتہ؟ اس بارے میں ائمہ تفسیر کی رائیں مختلف ہوئیں۔ لیکن اکثر مفسر اس طرف گئے ہیں کہ یہاں الروح سے مقصود جسم انسانی کی روح ہے نہ کہ فرشتہ۔ بہرحال سوال دونوں کی نسبت ہوسکتا ہے اور جواب بھی دونوں کے لیے مطابقت رکھتا ہے، اور آیت کیا صلی موعظت سوال کی تفصیل میں نہیں ہے، جواب کی نوعیت میں ہے۔ فرمایا (من امر ربی) اس معاملہ کے لیے جو کچھ بھی تمہیں بتلایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا حکم کام کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ تم پا نہیں سکتے اور اس سے زیادہ پانے کی کاوش کیوں کرو؟ (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) تمہارا دائرہ علم نہایت محدود ہے، تم اپنے علم و اداراک میں ایک خاص حد سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ تم علم میں سے جو کچھ پاسکتے ہو وہ اصل حقیقت کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑا ہے، وہ اس سمندر میں چند قطروں سے زیادہ نہیں اور تمہیں اسی پر قناعت کرنا ہے۔ انسان کے علم و ادراک کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کہ اسے حواس دیے گئے ہیں ْ انہی کے ذریعہ سے وہ محسوسات کا ادراک حاصل کرتا ہے۔ لیکن خود محسوسات کے دارئرہ کا کیا حال ہے ؟ یہ کہ کائنات ہستی کے سمندر میں ایک قطرہ سے زیادہ نہیں پھر اگر انسان تمام عالم محسوسات کا علم حاصل بھی کرلے تو اس کی مقدار حقیقت کے مقابلہ میں کیا ہوگی؟ ایک قطرہ کا علم، اس سے زیادہ نہیں، اور حالت یہ ہے کہ انسان محسوسات کے بھی کامل علم کا دعوی نہیں کرسکتا۔ وہ ہمیشہ اسی ایک قطرہ کے لیے پیاسا رہا اور آج تک پیاسا ہے۔ اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ فرمایا (من امر ربی) میرے پروردگار کے حکم سے یعنی وہ پروردگار ہے اور پروردگاری یہی چاہتی تھی کہ یہ جوہر پیدا ہو۔ آیت (٨٩) سے (٩٦) سے جو بات بیان کی گئی ہے وہ اگرچہ پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی لیکن یہاں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور مہمات معارف میں سے ہے۔ اچنبھوں کی فرمائش اور قرآن کا جواب : قرآن نے جابجا منکرین حق کے عقائد و اقوال نقل کر کے دو خاص گمراہیوں پر توجہ دلائی ہے۔ ایک یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں روحانی ہدایت کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جو محض انسان کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہوسکتا۔ ضروری ہے کہ انسانیت سے کوئی بالاتر ہستی ہو۔ اسی خیال نے دیوتاؤں کے ظہور اور ان کی عجائب آفرینیوں کا اعتقاد پیدا کیا۔ چنانچہ سورۃ اعراف اور ہود میں گزر چکا ہے کہ ہر داعی حق کے منکروں نے یہ بات ضرور کہی (مانراک الا بشرا مثلنا) تم تو ہماری ہی طرح کے ایک بشر ہو۔ پھر تمہارا یہ دعوی کیسے مان لیں۔ مشرکین مکہ بھی یہی کہتے تھے (مالھذا الرسول یاکل الطعام و یمشی فی الاسواق) یہ کیسا خدا کا فرستادہ ہے کہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ دوسری یہ کہ سچائی کو خود سچائی میں نہیں ڈھونڈتے، اچنبھوں اور کرشموں کی ڈھونڈ میں رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں جو آدمی سب سے زیادہ عجیب قسم کی باتیں کر رکھائے وہی سب سے زیادہ سچائی کی بات بتلانے والا ہے۔ گویا سچائی اس لیے سچائی نہ ہوئی کہ وہ سچائی ہے۔ بلکہ اس لیے کہ عجیب عجیب طرح کے کرشمے اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی فرمایا (ولقد صرفنا فی ھذا لقران لیذکروا وما یزیدھم الا نفورا) ہم نے قرآن میں عبرت و موعظت کی تمام باتیں دہرا دہرا کر بیان کردیں، مگر یہ باتیں انہی کے دلوں کو پکڑ سکتی ہیں جن میں سچائی کی طلب ہے، ورنہ اکثروں کا یہ حال ہے کہ انکار و سرکشی میں بڑھے ہی چلے جاتے ہیں ْ پھر ان کی انکار و سرکشی کی باتیں نفل کی ہیں۔ فرمایا وہ کہتے ہیں ہم تو جبھی مانیں گے جب تم ہمیں اس طرح کی باتیں کر دکھاؤ۔ مثلا مکہ کی ریگستانی زمین میں اچانک ایک نہر پھوٹ نکلے۔ آسمان کے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔ اللہ اور اس کے فرشتے ہمارے سامنے آجائیں۔ سونے کا ایک بنا بنایا محل نمودار ہوجائے۔ تم ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ دوڑو اور وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب لاکر ہمارے ہاتھوں میں پکڑاؤ۔ پھر پیغمبر اسلام کو حکم دیا ہے کہ ان فرمائشوں کے جواب میں کہہ دو : (سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا) میرے پروردگار کے لیے پاکی ہو۔ میری حیثیت اس کے سوا کیا ہے کہ ایک آدمی ہوں خدا کا بھیجا ہو۔ دعوی اور دلیل کی مطابقت : سبحان اللہ قرآن کی معجزانہ بلاغت کے اس جملہ کے اندر وہ سارے دفتر آگئے جو انکار و سرکشی کی ان صداؤں کے جواب میں کہے جاسکتے تھے۔ (ھل کنت الا بشر رسولا) میں نے کچھ خدائی کا دعوی نہیں کیا ہے، میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ آسمان کو زمین اور زمین کو آسمان بنا دینے و الا ہوں اور دنیا کی ساری قوتیں میرے تصرف واختیار میں ہیں، میرا دعوی جو کچھ ہے وہ تو یہ ہے کہ ایک آدمی ہوں پیام حق پہنچانے والا، پھر تم مجھ سے یہ فرمائشیں کیوں کرتے ہو؟ کیوں میرے لیے ضروری ہو کہ میں سونے کا محل دکھاؤں اور آسمان پر سیڑھی لگا کر چڑھ جاؤں۔ اس پہلو پر غرو جس پر جواب کا اصلی زور پڑ رہا ہے۔ اگر ایک شخص نے کسی بات کا دعوی کیا ہے تو ہم دیکھیں گے اس کا دعوی کیا ہے اور اسی کے مطابق اس سے دلیل مانگیں گے۔ اگر اس شخص نے دعوی کیا ہے کہ لوہار ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ وہ لوہے کا سامان بنا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ طبیب ہے تو ہم دیکھیں گے کہ علاج میں ماہر ہے یا نہیں اور بیماروں کو اس سے شفا ملتی ہے یا نہیں۔ ایسا نہیں کریں گے کہ کسی نے دعوی تو کیا ہو طبابت کا اور ہم اس سے دلیل وہ مانگنے لگیں جو ایک لوہار سے مانگنی چاہیے۔ یعنی کہیں، ہمیں لوہے کے شہتیر بنا کر دکھا دو، اگر ایسا کریں گے تو یہ صریح بے عقلی کی بات ہوگی۔ یہ بات یعنی دعوی اور دلیل کی مطابقت ایک ایسی عام اور قدرتی بات ہے کہ ہر آدمی خواہ کتنی ہی موٹی عقل کا ہو، خودبخود اسے پالیتا ہے۔ جونہی ایک آدمی کہے گا میں لوہار ہوں، وہ سنتے ہی فرمائش کرے گا کہ قفل بنا دو، کبھی اس کی زبان سے یہ نہیں نکلے گا کہ شیشے کا برتن بنا دو۔ اچھا ایک انسان آتا ہے اور کہتا ہے میں رسول ہوں، پیام حق پہنچانے والا ہوں، اب اس کا دعوی کیا ہوا؟ یہ کہ خدا نے اس پر سچائی کی راہ کھول دی ہے اور وہ دوسروں کو بھی اسی راہ چلانا چاہتا ہے۔ جب دعوی یہ ہوا تو اسی کے مطابق دلیل بھی ہونی چاہیے۔ قدرتی طور پر اس کی دلیل یہی ہوسکتی ہے کہ دیکھا جائے وہ سچائی کی راہ پر ہے یا نہیں، اور اس کی بتلائی ہوئی راہ پر چل کر سچائی ملتی ہے یا نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دعوی تو اس نے سچائی کی راہ دکھانے کا کیا ہو اور ہم دلیل یہ مانگنے لگیں گے کہ پہاڑ کو سونا بنا دے یا آسمان پر اڑ کر چلا جائے؟ طبیب کہتا ہے میں بیماروں کو چنگا کردیتا ہوں اور ہم دیکھتے ہیں اس کے علاج سے بیمار چنگے ہوئے یا نہیں۔ اسی طرح خدا کا رسول کہتا ہے میں روح و دل کی بیماریاں دور کردیتا ہوں اور اگر ہم طالب حق ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے اس کے علاج سے روح و دل کے بیماروں کو شفا ملتی ہے یا نہیں؟ اگر ہم طبیب سے کہیں تیرا دعوی ہم جبھی مانیں گے جب تو آسمانن پر اڑ کر چلا جائے تو یقینا وہ کہے گا، میں نے طبابت کا دعوی کیا ہے، آسمان پر اڑنے کا نہیں کیا ہے، ہوسکتا ہے کہ خدا مجھے اڑنے کی بھی طاقت دے دے لیکن طبابت کا اڑنے سے کیا واسطہ؟ اگر میرا دعوی پرکھنا چاہتے ہو تو آؤ تمہارا علاج کر کے اپنی طبابت کا ثبوت دے دوں۔ ٹھیک یہی معنی اس جواب کے ہیں کہ (ھل کنت الا بشر رسولا) میں نے یہ کب کہا کہ میں آسمان و زمین کے قلابے ملادوں گا؟ میرا دعوی تو صرف یہ ہے کہ پیام حق پہنچانے والا ہوں۔ پس اگر طالب حق ہو تو میرا پیام پرکھ لو، میرے پاس نسخہ شفا ہے کہ نہیں؟ میں صراط مستقیم پر چلا دے سکتا ہوں کہ نہیں؟ میں سرتاسر ہدایت اور رحمت ہوں کہ نہیں۔ پھر اس جواب میں صرف یہی نہیں کہا کہ میں رسول ہوں بلہ بشرا کے لفظ پر بھی زور دیا، کیونکہ جو بات منکروں کے دماغ میں کام کر رہی تھی وہ یہی تھی کہ ایک آدمی جس میں کوئی مافوق انسانیت کرشمہ نہیں پایا جاتا، خدا کا فرستادہ کیسے ہوسکتا ہے اور کیوں ہم اس پر ایمان لائیں؟ فرمایا میں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ ایک آدمی ہوں، پیام حق پہنچانے والا آدمی، میں نے یہ دعوی نہیں کیا کہ فرشتہ ہوں یا کوئی ماورائے انسانیت مخلوق۔ اس کے بعد فمرایا (وما منع الناس ان یوموا اذ جائھم الھدی الا ان قالوا ابعث اللہ بشرا رسولا جب کبھی دنیا میں خدا کی ہدایت نمودار ہوئی تو ہمیشہ اسی خیال فاسد نے لوگوں کو قبولیت حق سے روکا کہ کہنے لگے : کیا خدا نے ایک آدمی کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ہے؟ یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری ہی طرح کا ایک کھانے پینے والا آدمی خدا کا پیغمبر ہوجائے۔ پھر اس کو جواب دیا ہے کہ (قل لو کان فی الارض ملئکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا) اگر زمین میں انسانوں کی جگہ فرشتے بسے ہوتے تو ان کی ہدایت کے لیے فرشتے ہی اترتے، لیکن یہاں تو انسان بستے ہیں اور انسانوں ہی کی ہدایت مقصود ہے، پس ان کی ہدایت کی صدائیں انسانوں ہی کی زبان سے نکلیں گے۔ فرشتے نہیں اتر سکتے اور نہ کبھی فرشتے اترے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ منکروں کی یہ فرمائشیں حجت و برہان کے طلب میں نہ تھیں بلکہ محض سرکشی اور ہٹ دھرمی کی باتیں تھیں جو اس لیے کہی جاتی تھیں کہ کوئی نہ کوئی بات کہہ کر اپنے انکار کے لیے سہارا پیدا کیا جائے۔ْ اور ہمیشہ راست بازوں کے مقابلہ میں نہ ماننے والوں کا ایسا ہی طرز عمل رہا ہے۔ جب کبھی سچائی کی کوئی بات کہی جاتی ہے تو طلب حق رکھنے والی طبیعتیں اور کسی طرف نہیں جاتیں۔ خود اسی بات پر غور کرتی ہیں اور جب سچائی پالیتی ہیں تو فورا قبول کرلیتی ہے۔ لیکن ایک سرکش اور ہٹ دھرم آدمی کبھی ایسا نہیں کرتا، وہ پہلے سے طے کرلیتا ہے کہ کبھی ماننے والا نہیں۔ پھر کوشش کرتا ہے کہ اپنے نہ ماننے کے لیے کوئی بات بنا لے۔ وہ طرح طرح کی باتیں ادھر ادھر کی نکالے ل گا۔ کبھی ایک بات کہے گا، کبھی دوسری۔ پہلے کسی ایک بات پر زور دے گا کہ اس کا جواب کیا ہے ؟ جب اس کا جواب مل جائے گا تو کوئی دوسری بات ڈھونڈ نکالے گا اور کہے گا، اس کا جواب تمہارے پاس کوئی نہیں، یہاں تک کہ اگر تم اس کی ساری کٹ حجتیوں کا جواب دے دو اور ساری شرطیں اور فرمائشیں پوری کردو جب بھی وہ کوئی نہ کوئی اور بات ڈھونڈ نکالے گا اور راست بازی کی راہ کبھی نہیں چلے گا۔ چنانچہ قرآن نے جابجا منکروں کی اس حالت کا ذکر کیا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ وہ کبھی ماننے والے نہیں۔ اگر ماننے والے ہوتے تو اس طرح کی روش کبھی اختیار نہ کرتے۔ سورۃ انعام کی آیت (١١١) میں گزر چکا ہے : (ولو اننا نزلنا الیھم الملائکۃ وکلمھم الموتی وحشرنا علیھم کل شیء قبلا ما کانوا لیوموا الا ان یشاء اللہ ولکن اکثرھم یجھلون) ان آیات میں ان کے جو اقوال نقل کیے ہیں، ان پر غور کرو، پہلے کہا، نہر بہادو، باغ اگادو، سونے کا محل لا دکھاؤ، خود اللہ اور اسکے فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرو، پھر کہا آسمان پر چڑھ جاؤ، لیکن کیا آسمان پر چڑھ جانا کافی ہوگا؟ نہیں اس پر بھی وہ ماننے والے نہیں، یہ بھی ہونا چاہیے کہ وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب اپنی بغل میں دابے ہوئے واپس آؤ، اور پھر وہ لکھی ہوئی بھی ایسی ہو کہ وہ کود اسے پڑح کر جانچ سکیں۔ تب کہیں جاکر ان کی شرط پوری ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کسی راست باز آدمی کی زبان سے ایسی باتیں نہیں نکل سکتیں، اس کے معنی صریح یہی تھے کہ وہ کبھی ماننے والے نہیں۔