لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
تمہارے لیے اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش (284) کرو، جب عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام (285) کے پاس اللہ کو یاد کرو، اور اسے یاد کرو جیسا اس نے تمہیں ہدایت دی، اگرچہ تم اس سے پہلے راہ بھٹکے ہوئے تھے
دین حق کی اس اصل عظیم کا اعلان کہ خدا پرستی اور دین داری کی راہ دنیوی معیشت اور دنیوی فلاح و ترقی کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی کامل زندگی پیدا کرنی چاہتا ہے جس میں دنیا اور آخرت دونوں کی سعادتیں موجود ہوں۔ حج ایک عبادت ہے۔ لیکن اس کا عبادت ہونا اس سے مانع نہیں کہ کاروبار دنیوی کا بھی فائدہ اٹھاؤ۔ مال و دولت الللہ کا فضل ہے۔ پس چاہیے کہ اللہ کے فضل کی تلاش میں رہو۔ دین اور دنیا کے معاملہ میں دنیا کی عالمگیر گمراہی یہ ہے کہ یا تو افراط میں پڑگئے ہیں، یا تفریط میں، اور راہ اعتدال گم ہوگئی ہے۔ یعنی یا تو دنیا کا انہماک اس درجہ بڑھ جاتا ہے کہ آخرت سے یک قلم بے پرواہ ہوجاتے ہیں یا آخرت کے استغراق میں اتنے دور نکل جاتے ہیں کہ ترک دنیا اور رہبانیت کا دم بھرنے لگتے ہیں۔ لیکن دین حق کی راہ ہر گوشہ عمل کی طرح یہاں بھی اعتدال کی راہ ہے اور صحیح زندگی اس کی زندگی ہے جو کہتا ہے "خدایا میں دنیا اور آخرت دونوں کو سعادتیں چاہتا ہوں"