وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا
اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں (٦) بنائی ہیں، پس ہم رات کی نشانی کو مٹا دیتے ہیں (یعنی بے نور بنا دیتے ہیں) اور دن کی نشانی کو روشن بنا دیتے ہیں تاکہ تم اپنے رب کی پیدا کردہ روزی حاصل کرو اور تاکہ تم سالوں کی تعداد اور دوسرے حسابات معلوم کرو، اور ہم نے (قرآن میں) ہر چیز تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہے۔
اس کے بعد آیت (١٢) میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کس طرح ربوبیت الہی نے تمہاری ہدایت کا فطری سامان کردیا ہے اور کس طرح کارخانہ ہستی کا ہر معاملہ تمہاری کار براریوں کا ذریعہ ہے۔ اور جب ربوبیت الہی کی یہ کارفرمائیاں شب و روز دیکھ رہے ہو تو اس سے تمہیں کیوں انکار ہوا گر وہ وحی و نبوت کے قیام کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کا مزید سامان کردے؟ آیت (١٢) سے آیت (١٧) تک یہ حقیقت واضح کی ہے کہ انسان اپنے اعمال کے نتائج سے بندھا ہوا ہے اور جو برائی بھی اسے پیش آتی ہے اسی کے اعمال کی پیداوار ہے۔ یہ مقام تشریح طلب ہے، اس کی تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔