سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
(تمام عیوب و نقائص) سے پاک (١) ہے وہ جو اپنے بندے (محمد) کو رات کے وقت مسجد حرام سے اس مسجد اقصی تک لے گیا جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
ہجرت مدینہ سے تقریبا ایک سال پہلے پیغمبر اسلام کو اسری کا معاملہ پیش آیا جو عام طور پر معراج کے نام سے مشہور ہے، اس سورت کی ابتدا اسی واقعہ کے ذکر سے کی گئی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس معاملہ سے مقصود کیا تھا : (لنریہ من ایتنا) تاکہ اللہ کی نشانیاں ان کے مشاہدہ میں آجائیں۔ یعنی دلائل حقیقت کا عینی مشاہدہ کرلیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ وحی کی تکمیل تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا : (واتینا موسیٰ الکتاب) اسی طرح حضرت موسیٰ کا معاملہ وحی بھی کوہ طور کے اعتکاف میں مکمل ہوا تھا کہ (ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ) اور انہیں کتاب شریعت دی گئی تھی۔ (انہ ھو السمیع البصیر) وہی ہے جو سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ پس جسے چاہیے اس سے زیادہ سنا دے، جتنا سب سن رہے ہیں اور اس سے زیادہ دکھا دے، جتنا سب دیکھ رہے ہیں۔ یہاں مسجد حرام سے مقصود مکہ ہے، اور مسجد اقصی سے بیت المقدس کا ہیکل۔ اسے اقصی اس لیے فرمایا کہ عرب کے لیے قریب کی عبادت گاہ خانہ کعبہ اور دور کی عبادت گاہ ہیکل۔