وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ
اور (مسلمانو) گر تم سزا دو (٧٨) تو اتنا ہی دو جتنی سزا تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو گے تو (جان لو کہ) ایسا کرنا صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھی بات ہے۔
اس کے بعد فرمایا : (وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصبرین) اگر مخالف ناحق کو شی میں سرگرم ہے اور سختی و زیادتی پر اتر آیا ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تم بھی آپے سے باہر ہوجاؤ۔ ایسا کرنا راست بازی کا طریقہ نہ ہوگا۔ ایک برائی کے جواب میں دوسری برائی کا ارتکاب ہوگا جو ممکن ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ سخت برائی ہوجائے۔ بہتری تو اس میں ہے کہ سختی کا جواب سختی سے نہ دو، جھیل جاؤ، پروا نہ کرو، بخش دو۔ اسی میں تمہاری اصلی جیت ہے۔ لیکن اگر طبیعت پر قابو نہیں پاتے اور سختی کا جواب سختی سے دینا ہی چاہتے ہو تو پھر انصاف کا سر رشتہ ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ جتنی اور جیسی سختی تمہارے ساتھ کی گئی ہے ویسی ہی اور اتنی ہی تم بھر کرلو۔ اس سے آگے نہ بڑھو۔ ذرا بھی بڑھے تو یہ ظلم ہوگا اور ظلم راستی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ غور کرو۔ قرآن کا محض ایک لفظ یا محض ایک ترکیب کس طرح مقاصد و مسائل کے فیصلے کردیا کرتی ہے؟ پہلے بصیغہ امر دعوت کا حکم دیا گیا تھا : (ادع الی سبیل ربک) پس چاہیے تھا کہ یہاں بھی بدلہ لینے کا حکم دیا جاتا اور کہا جاتا، اگر تمہارے ساتھ سختی کی گئی ہے تو تم بھی ویسی ہی سختی کرو، مگر نہیں ایسا نہیں فرمایا، بلکہ کہا : (وان عاقبتم) اگر ایسا ہو کہ تم مخالف کی سختی کے جواب میں سختی کرنا چاہو، تو چاہیے کہ حد سے نہ بڑھو۔ اس سے معلوم ہوا کہ سختی کے جواب میں سختی کا حکم نہیں ہے۔ محض اجازت ہے۔ یعنی اگر ایک آدمی وہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو اس بارے میں بہتری اور خوبی کا اصلی مقام ہے، جھیل جانا اور بخش دینا، تو پھر اسے بدلے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن اجازت کو (بمثل ما عوقبتم) سے مقید کردیا ہے تاکہ زیادتی کا دروازہ بکلی بند ہوجائے۔ اب دو ہی راہیں کھلی رہ گئیں : عزیمت تو اس میں ہوئی کہ جھیل جاؤ اور بخش دو۔ رخصت اس کی ہوئی کہ جتنی سختی کی گئی ہے اتنی ہی تم بھی کرلو۔ اس سے آگے قدم نہیں بڑھا سکتے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام غزالی کی ایک تقریر بہت مقبول ہوئی ہے جو انہوں نے قسطاس السمتقیم میں لکھی ہے اور بعد کے فمسرین نے عموما اسے اختیار کرلیا ہے۔ وہ کہتے ہیں استعداد و فہم کے لحاظ سے ہر انسان کی طبیعت یکساں نہیں اور ہر ذہنی حالت ایک خاص طرح کا اسلوب خطاب چاہتی ہے۔ ارباب دانش کے لیے استدلال کی ضرورت ہوتی ہے، عوام کے لیے موعظت کی، اور اصحاب خصوصیت کے لیے جدل کی۔ پس اس آیت میں قرآن نے تینوں جماعتوں کے لیے یہ تینوں طریقے بتلا دیے ہیں، ارباب دانش کو حکمت کے ساتھ مخاطب کرو۔ عوام کو موعظت کے ساتھ اور ارباب خصومت کے لیے جدل کی بھی اجازت ہے مگر بطریق احسن۔ آخر میں سورت ختم کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کو مخاطب کیا ہے کہ : (ا) صبر کرو اور تیرا صبر کرنا اللہ ہی کی مدد و توفیق سے ہے۔ (ب) منکروں کی محرومی پر غم نہ کھا، جو ماننے والے نہیں ہیں وہ کبھی نہیں مانیں گے۔ (ج) دعوت حق کی مخالفت میں وہ جو کچھ مخفی تدبیریں اور سازشیں کر رہے ہیں ان سے بھی دل تنگ نہ ہو۔ (د) یہ قانون الہی یاد رکھ کہ اللہ کی نصرت انہی کا ساتھ دیتی ہے جو برائیوں سے بچتے ہیں اور جن کی زندگی نیک کرداروں کی زندگی ہوتی ہے۔