وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اور آپ اس دن کو یاد کیجیے جب ہم ہر گروہ سے ان پر ایک گواہ (٥٥) کھڑا کریں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ کی حیثیت سے پیش کریں گے، اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے۔
آیت (٨٩) میں سلسلہ بیان نے یہ رخ اختیار کیا تھا کہ (نزلنا علیک الکتاب) ہم نے تجھ پر ایک کتاب نازل کی جو دین کی تمام باتیں واضح کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدیات، رحمت اور بشارت ہے۔ لیکن وہ مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت کیونکر ہوئی؟ اس طرح ہوئی کہ انہیں فلاح و سعادت کی راہ پر چلاتی ہے۔ بدعملیوں کی راہوں سے روکتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی سلسلہ بیان مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوگیا اور فرمایا (ان اللہ یامر بالعدل والاحسان) اللہ کا تمہارے لیے فرمان یہ ہے کہ عدل کو اپنا شیوہ بناؤ، نیک کرداری میں سرگرم رہو، قرابت والوں کے حسن سلوک کرو، فحش کاموں سے بچو، ہر طرح کی برائیوں سے اجتناب کرو، ظلم و زیادتی سے کبھی آلودہ نہ ہو۔ جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کے لیے اب آزمائش عقائد میں تھہ، اعمال میں تھی اس لیے اس آیت میں عملی زندگی کی تمام مہمات بیان کردیں، یہ گویا قرآن کے اس وصف کی تفسیر ہے جو پچھلی آیت میں بیان کیا گیا تھا کہ (تبیانا لکل شیء) اسی لیے مفسرین نے اسے جوامع آیات میں شمار کیا ہے۔