وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی میں برتری (٤٤) دی ہے، پس جنہیں فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی روزی اپنے غلاموں کو نہیں دے دیتے تاکہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔
آیت (٧١) بھی قرآن کی ان آیتوں میں سے ہے جن سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ اس بارے میں قرآن کی تعلیم کا رخ کس طرف ہے؟ اس سے معلوم ہوا ہے کہ قرآن اس صورتحال سے تو تعرض نہیں کرتا کہ معیشت کے اعتبار سے تمام انسانوں کی حالت یکساں نہیں، کسی کے پاس زیادہ سامان معیشت ہے، کسی کے پاس کم، لیکن وہ یہ صورتحال برداشت نہیں کرسکتا کہ حصول رزق کے اعتبار سے لوگوں کی حالت یکساں نہ ہو۔ کسی کو ملے، کسی کو نہ ملے۔ وہ کہتا ہے ہر انسان جو دنیا میں پیدا ہوا دنیا کے سامان و رزق سے حصہ پانے کا یکساں طور پر حقدار ہے اور کسی فرد اور گروہ کو حق نہیں کہ اس سے اسے محروم کردے۔ خواہ وہ طاقتور ہو یا کمزور، تندرست ہو یا بیمار، قابل ہو یا ناقابل، دولت مندوں کے گھر پیدا ہو یا فقیروں کے، لیکن اگر انسان ہے تو ماں کے پیٹ سے وہ یہ حق لے کر آیا ہے کہ زندہ رہے اور زندگی کا سروسامان پائے۔ لیکن ہر فرد زندگی کا سروسامان کیونکر پاسکتا ہے؟ جو کمور ہے یا جو ایسے حالات میں پڑگیا ہے کہ کمانے کا موقع نہیں پاتا، یا جو معذور اور لاچار ہوگیا ہے وہ سروسامان معیشت کہاں سے پائے گا؟ قرآن کہتا ہے اس طرح کہ جن لوگوں کو کمائی کا زیادہ موقع ملا ان کے ذمے خرچ کرنے کا فرض بھی عائد ہوگیا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ کمزوروں کو لوٹا دیں۔ لوٹا دیں، کیونکہ فی الحقیقت کمائی کی یہ زیادہ مقدار ان افراد کے لیے تھی جو کمزوری کی وجہ سے حاصل نہ کرسکے۔ اب چلی گئی ہے طاقتور افراد کے پاس اس لیے چاہیے کہ حقداروں کو لوٹا دی جائے۔ یعنی جو ان کا حق ہے وہ انہیں مل جائے۔ وہ کہتا ہے یہ بات کہ تمہیں سامان معیشت کے زیادہ کمانے کا موقع مل گیا ہے تمہیں اس بات کا حقدار نہیں بنا دیتی کہ اپنی ساری کمائی صرف اپنی انفرادی زندگی ہی کے لیے روک لو۔ کیونکہ دنیا کے وسائل زندگی کسی خاص انسان کی حقیقی ملکیت نہیں ہوسکتے۔ یہاں جو کچھ ہے تمام نوع کے لیے ہے۔ پس اگر ایک فرد نے زیادہ کما لیا تو کما سکتا ہے لیکن ایسا نہیں سمجھ سکتا کہ ساری کمائی اسی کی ہوگئ۔ جو کچھ اس نے کمایا ہے دراصل نوع انسانی کی ایک امانت ہے اور اس کے قبضہ میں آگئی ہے۔ وہ اس پر قابض ہوسکتا ہے لیکن اسے صرف اپنے ہی لیے خاص نہیں کرسکتا۔ اس کا فرض ہے کہ خود بھی کھائے اور ان کمزوروں کو بھی کھلائے جو حصول معیشت و محروم رہ گئے ہیں۔ دراصل قرآن کی اس تعلیم کی تہ میں یہ بنیادی اسل کام کررہی ہے کہ وہ نوع انسانی کے مختلف افراد اور جماعتوں کو ایک دوسرے سے الگ اور منقطع تسلیم نہیں کرتا بلکہ سب کو ایک گھرانے کے مختلف افراد قرار دیتا ہے۔ ایسے افراد کو آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے شریک حال ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے والے ہیں۔ بلاشبہ ان میں کاہر فرد اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق جدودجہد معیشت میں لگا ہوا ہے اور کوئی زیادہ کامیاب ہوتا ہے اور کوئی کم لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک فرد دوسرے فرد کی حالت سے بے پروا ہوجائے۔ جو زیادہ کماتا ہے وہ اپنی کمائی دوسرے کو اٹھا کر نہیں دیتا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ دوسرے کی یک قلم محرومی برداشت کرلے۔ اور اس کے لیے اپنے کو ذمہ دار نہ سمجھے۔ جو زیادہ کماتا ہے اس کے پاس زیادہ کمائی رہتی ہے اور جو کم کماتا ہے اس کے پاس کم رہتی ہے لیکن کھاتے پیتے سب ہیں۔ بھوکا کوئی نہیں رہ سکتا، کمائی میں سب الگ الگ جدو جہد کریں گے۔ کھانے میں سب ایک دوسرے کے شریک ہوجائیں گے۔ دنیا میں نسل و تواراث کے قریبی رشتوں نے خاندانوں کی بنیاد ڈال دی ہے۔ یہ خاندانی زندگی ٹھیک ٹھیک اس زندگی کا ایک نمونہ ہے جو قرآن چاہتا کہ تمام نوع انسانی کی ہوجائے۔ ایک خاندان میں مختلف افراد ہوتے ہیں اور استعداد کار کے لحاظ سے تمام افراد کی حالت یکساں نہیں ہوتی۔ کوئی فرد زیادہ کماؤ ہوتا ہے کوئی کم۔ کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ نہیں کماتا، یا کچھ نہیں کما سکتا، جو زیادہ کماتا ہے وہ اپنی کمائی اپنے ہی پاس رکھتا ہے۔ ایسا نہیں کرتا کہ اٹھا کر دوسرے کو دے دے، لیکن باہم رشتہ داری نے باہمی فرائض و تعاون کا جو فرض عائد کردیا ہے اسے خاندان کا کوئی فرد نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ خاندان کا ایک فرد خود تو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے لیکن دوسروں کو فقرو و فاقہ کی حالت میں ہلاک ہونے کے لیے چھوڑ دے۔ کمانے میں سب کی راہیں الگ ہوتی ہیں اور نتائج بھی سب کو ایک طرح کے پیش نہیں آتے لیکن کھانے میں سب اویک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی فکر سے غافل نہیں ہوسکتے۔ اگر خاندان کا ایک فرد زیادہ کماتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ خرچ کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر زیادہ عائدہ ہوگئی ہے اور دوسرے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ زیادہ کماتا ہے تو اسے ہماری خبر گیری بھی دوسروں سے زیادہ کرنی چاہیے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے مختلف افراد ہوتے ہیں مگر باہمی تعاون و اشتراک کا فرض بھلا دیتے ہیں۔ ایک بھائی لاکھوں کماتا ہے، دوسرا بھائی بھوکا مرتا ہے، لیکن دنیا ایسے آدمی کو ملامت کرے گی، وہ کہیے گی یہ ننگ خاندان ہے، اس نے یہ بات کیسے گوارا کرلی کہ خود تو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے اور اس کا بھائی ایک ایک دانہ کو ترسے۔ قرآن چاہتا ہے، ایسا ہی اعتقاد نوع انسانی کے تمام افراد میں پیدا ہوجائے، وہ کہتا ہے تمام افراد انسانی دراصل ایک ہی گھرانے کے مختلف افراد ہیں، انسانیت ان کی نسل ہے اور کرہ ارضی ان کا وطن ہے۔ بلاشبہ ان کا ہر فرد حق رکھتا ہے کہ اپنی اپنی حالت اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق معیشت کے وسائل حاصل کرے، لیکن اس کا حق نہیں رکھتا کہ اپنی کمائی کو صرف اپنے ہی لیے سمجھ لے اور پانے کمزور بھائی کے لیے کچھ نہ نکالے۔ کمانے میں سب کی راہیں الگ ہوں گی، قبضہ و تصرف میں بھی سب الگ الگ رہیں گے لیکن کھانے میں الگ نہیں رہ سکتے۔ یہ خدا کے اس عالمگیر گھرانے کا ہر فرد قدرتی حق ہے۔ وہ کما سکے یا نہ کما سکے لیکن اسے زندہ رہنے کا سامان ملنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کمائی کے حق کا دامن انفاق کی ذمہ داری سے بندھا ہوا ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، تم انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے، یہاں کمائی کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ خرچ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی جائے، اگر تم کچھ نہیں کما سکتے تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، جونہی تم کمانے لگو تم پر ذمہ داری عائد ہوگئی، اب یہ جتنی بڑھتی جائے گی انفاق کی ذمہ داری بھی بڑھتی جائے گی، ہر پیشہ جو تمہاری جیب میں آئے گا انفاق کی ایک تازہ ذمہ داری اپنے ساتھ لائے گا۔ تمہاری کمائی کی راہ میں کوئی روک نہیں، تم جس قدر کما سکتے ہو کماؤ، بلکہ چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ کماؤ لیکن یہ نہ بھولو کہ زیادہ سے زیادہ کمانا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے افراد کے ہاتھ کمائی کے لیے ہیں لیکن جماعت کا حق خرچ کرانے کا ہے، افراد جتنا کما سکتے ہیں کمائیں لیکن ڈھیر لگانے کے لیے نہیں خرچ کرنے کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکتناز کو روکنا چاہتا ہے، یعنی چاندی سونے کے ڈھیر لگانے کو، اور کہتا ہے ان کے لیے عذاب الیم کی بشارت ہے جو ڈھیر لگاتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا) شرح اس کی سوربہ توبہ میں گزر چکی ہے۔ اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ جہاں تک نظام میعشت کا تعلق ہے قرآن نے اکتساب مال کا معاملہ انفاق مال کے ساتھ وابسہ کردیا ہے وہ فرد کے حق اکتساب سے تعرض نہیں کرتا لیکن اس حق کو انفاق کی ذمہ داری کے ساتھ باندھ دیتا ہے۔ جس قدر کما سکتے ہو کماؤ لیکن کوئی کمائی جائز تسلیم نہیں کی جاسکتی اگر انفاق سے انکار کرتی ہو۔ ہر وہ کمائی جو محض اکتناز کے لیے ہو اور انفاق کے لیے دروزہ کھلا نہ رکھے قرآن کے نزدیک ناجائز، ناپاک، اور مستحق عقوبت ہے۔ چنانچہ یہاں آیت (٧١) میں فرمایا : (واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق) سروسامان رزق کے اعتبار سے سب کی حالت یکساں نہ ہوئی۔ کسی کے پاس زیادہ ہے، کسی کے پاس کم ہے، کوئی بالکل محروم ہے۔ (فما الذین فضلوا برادی رزقھم علی ما ملکت ایمانھم) پھر جن لوگوں کو رزق میں برتری دی گئی ہے وہ ایسا کرنے والے نہیں کہ اپنے کمائے ہوئے رزق اپنے غلاموں اور زیر دستوں کو دے دیں۔ (فھم فیہ سواء) حالانکہ جو رزق انہوں نے کمایا ہے وہ کچھ ان کا خلق کیا ہوا نہیں ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اور اس لیے رزق کے حقدار ہونے میں وہ سب برابر ہیں۔ خواہ کوئی زیردست ہو کر محروم ہوگیا ہو خواہ کوئی زبردست ہو کر خوشحالی ہوگیا ہو۔ (افبنعمۃ اللہ یجحدون) پھر کیا یہ اللہ کی نعمت کے منکر ہیں؟ اللہ کی نعمت ہے، کیونکہ دنیا میں جس قدر سروسامان معیشت ہے وہ دراصل فطرت ہی کی پیداوار ہے۔ کسی فرد انسانی کی پیدا کی ہوئی نہیں ہے اور اگر ایک فرد کے قبضہ میں آجاتی ہے تو یہ ایک اللہ کا فضل ہے، پس چاہیے کہ اس کی شکر گزاری بجا لائی جائےْ نہ یہ کہ کفران نعمت کیا جائے، اس کی شکر گزاری کیا ہے ؟ ان افراد پر خرچ کرنا جو اس کے حصول سے محروم ہیں۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ سروسامان معیشت سب کے پاس یکساں نہیں اور یہ اختلاف حال قدرتی ہے، اسی لیے اسے اللہ نے براہ راست اپنی طرف منسوب کیا۔ دوسری یہ کہ رزق کے حقدار ہونے میں سب برابر ہوئے۔ خواہ کوئی آقا ہو، کوئی مملوک، کوئ طاقتور، کوئی زیردست۔ چونکہ یہ دونوں باتیں یکجا ہو کر اس سوال پر روشنی ڈالتی ہیں کہ نظام معیشت کے معاملہ میں قرآن کا رخ کس طرف ہے اس لیے ضروری تھا کہ مندرجہ صدر تشریحات اسی محل میں کردی جائیں۔ اس آیت میں (فھم فیہ سواء) کا مطلب قرار دیتے ہوئے بعض مفسرین نے اسے عدم تساوی حال پر محمول کیا ہے اور تقدیر عبارت یوں قرار دی ہے کہ افھم فیہ سواء؟ بعضوں نے فھم کی فا کو حتی کے معنوں میں لیا ہے لیکن جملہ کا صاف صاف مطلب وہی ہے جو ہم نے قرار دیا ہے۔ یعنی یہ صریح تساوی حال کی خبر ہے نہ کہ اس کی نفی، اور جب مطلب ٹھیک ٹھیک بیٹھ رہا ہے تو پھر کون سی وجہ ہے کہ جگہ سے ہٹنے کے لیے مضطرب ہوں۔