وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ
اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں (٤٠) میں بھی عبرت ہے، اس کے پیٹ میں جو گوبر اور خون ہے ان کے درمیان سے خالص دودھ نکال کر ہم تمہیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بڑا ذائقہ درا ہوتا ہے۔
آیت (٦٦) سے (٦٩) تک ربوبیت الہی کی بخشائشوں کا نقشہ کھینچا ہے۔ ساتھ ہی اس کی صنعت و حکمت کی کرشمہ سازیوں پر بھی توجہ دلائی ہے اور بحیثیت مجموعی ربوبیت، رحمت اور حکمت کا استدلال ہے۔ فرمایا تمہاری غزا میں تین چیزیں سب سے زیادہ مفید اور لذیذ ہیں، دودھ، پھلوں کا عرق اور شہد۔ تم میں سے کوئی نہیں جو ان تین نعمتوں سے آشنا نہ ہوا ہو۔ یہ تمہاری روزانہ غذا کا جو ہر، لذت طعم کا ذریعہ اور جسمانی شفا کا نسخہ ہے۔ لیکن یہ دودھ جو طفولیت سے لے کر بڑھاپے تک تمہاری سب سے زیادہ دل پسند غذا ہوتی ہے، کس طرح اور کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ تم نے کبھی غور کیا؟ اگر غور کرو تو تمہارے فہم و عبرت کے لیے صرف یہی ایک بات کافی تھی۔ یہ اسی جسم میں بنتا ہے جس میں غلاظت بنتی ہے، جو طرح طرح کی آلائشوں سے بھرا ہوا ہے۔ جس میں اگر کوئی سیال شے موجود ہوتی ہے تو خون ہے جسے کبھی ہونٹوں سے لگانا پسند نہ کرو۔ پھر دیکھو جانروں میں اس کے اترنے کا مخرج کہاں ہے؟ وہیں جس کے قریب ہی بول وبراز کا مخرج ہے۔ یعنی ایک ہی کارخانہ میں، ایک ہی مادہ سے اور ایک طرح کے ظروف میں، ایک طرف تو غلاظت بنتی اور نکلتی رہتی ہے جسے تم دیکھنا بھی پسند نہ کرو، دوسری طرف ایک ایسا جوہر غذا و لذت بھی بنتا اور نکلتا ہے جسے تم دیکھتے ہی اٹھا لو اور بے غل و غش ایک ایک قطرہ پی جاؤ۔ کون ہے جس کی حکمت نے یہ عجیب و غریب کارخانہ بنادیا؟ کون ہے جو ایسے عجیب طریقوں سے زندگی کے بہترین وسائل بخش رہا ہے اور پھر کیا ممکن ہے کہ قدرت کی یہ کارفرمائی، حکمت کی یہ صنعت طرازی، ربوبیت کی یہ چار سازی، بغیر کسی قدیر، حکیم اور رب العالمین ہستی کے ظہور میں آگئی ہو؟ پھلوں میں طرح طرح کے خوش ذائقہ عرق پیدا ہوتے ہیں اور انہیں مختلف طریقوں سے تم کام میں لاتے ہو۔ مثلا کھجور اور انگور کے درخت ہیں۔ ان کے عرق سے نشہ کی چیز بنا لیتے ہو اور اچھی اور جائز غذائیں بھی اس سے بنتی ہیں۔ لیکن یہ پھل پیدا کس طرح ہوئے؟ کھجور اور انگور کا ہر دانہ شیرینی اور غذائیت کی ایک سربہ مہر شیشی ہے جو درختوں میں لٹکنے لگتی ہے اور تم ہاتھ بڑھا کرلے لیتے ہو، لیکن یہ بنتی کس کارخانہ میں ہے ؟ زمین اور مٹی میں، یعنی اس مٹی میں جس کا ایک ذرہ بھی تمہارے منہ میں پڑجاتا ہے تو بے اختیار ہو کر تھوکنے لگتے ہو۔ تم خشک گٹھلیاں مٹی میں پھینک دیتے ہو، مٹی وہی گٹھلی ان نعمتوں کی شکل میں تمہیں واپس دے دیتی ہے۔ کون ہے جس کی ربوبیت و حکمت مٹی کے ذروں سے یہ خزانے اگلوا رہی ہے؟ خوشبو، ذائقہ، اور غذائیت کے خزانے؟ پھر شہد کے چھتوں کو دیکھو۔ یہ کارخانے ہیں جن میں تمہارے لیے شب و روز شہد تیار ہوتا رہتا ہے۔ تم دنیا کے سارے پھول اور پھل جمع کر کے چاہو کہ شہد کا ایک قطرہ بنا لو تو کبھی نہ بنا سکو گے، لیکن ایک چھوٹی سی مکھی بناتی رہتی ہے اور اس نظم و انضباط، محنت و استقلال، تحسین و تدقیق، ترتیب و تناسب، اجتماع و اشتراک اور یکسانی وہم آہنگی کے ساتھ بناتی رہتی ہے کہ اس کی ہر بات ہماری عقلوں کو درماندہ کردینے والی اور ہماری فکروں کی ساری توجیہوں اور تعلیلوں پر دروازہ بند کردینے والی ہے۔ قرآن کے الفاظ پر غور کرو، کس طرح معاملہ کے دقائق واضح کردیے ہیں؟ چونکہ شہد کی مکھی کی یہ صنعت گری جدوجہد، نظم و انضباط اور سرگرمی و باقاعدگی کا ایک پورا سلسلہ ہے جو عرسہ تک جاری رہتا ہے اور یکے بعد دیگرے بہت سی منزلوں سے گزر کر مکمل ہوتا ہے اس لیے اس کے کاموں کو سبل سے تعبیر کیا۔ یعنی عمل کی راہوں سے (فاسلکی سبل ربکا) اور پھر چونکہ اس بات پر توجہ دلانا مقصود تھا کہ جوراہ عمل ٹھہرا دئی گئی ہے اس پر ٹھیک ٹھیک چلتی رہتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ذرا بھی ادھر ادھر ہو اس لیے فرمایا ذللا، حکم الہی کے آگے جھکی ہوئی کام کیے جا۔ چنانچہ اس کا ہر فرد اس طرح حکم الہی کے آگے جھک گیا ہے کہ ممکن نہیں کسی کو راہ عمل سے منحرف ہوتا ہوا پاؤ۔ یاد رہے کہ جس وقت تک ہندوستان کا گنا دوسرے ملکوں میں نہیں پہنچتا تھا میٹھی غذاؤں کے بنانے کا تمام تر دارومدار شہد ہی پر تھا۔ یا پھر ایسے پھلوں پر جو بہت زیاہد میٹھے ہوتے ہیں۔ جیسے کھجور، سکندر اعظم جب ہندوستان آیا تھا اور یونانیوں نے یہاں کی قندکھائی تھی تو خیال کیا تھا یہ بلور کی طرح کوئی معدنی چیز ہے جس کا مزہ شہد کی طرح میٹھا ہوتا ہے۔ غالبا سب سے پہلے عربوں نے ہندوستانی گنے کی کاشت مصر میں کی اور پھر مصر سے مصری یورپ میں پہنچی۔ پس شہد کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے کیا گیا کہ دنیا کے اکثر حصوں میں مٹھاس کا مادہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھا، نیز یہ محض لذیذ غذا ہی نہیں بلکہ کتنی ہی بیماریوں کے لیے نسخہ شفا بھی ہے۔ وحی مخفی اشارہ کو کہتے ہیں اور یہاں لغوی معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ فرمایا یہ ربوبیت الہی کی وحی ہے جو تمام مخلوقات کو ان کے کاموں پر لگاتی ہے اور جس نے ایک حقیر سے جانور میں سعی و عمل کی ایسی حیرت انگیز قوت پیدا کردی ہے۔ دنیا میں انسانی معیشت کا کارخانہ اس طرح چل رہا ہے کہ ہر طرح کے فوائد و وسائل کے حصول کا دروزہ ہر انسان اور ہر گروہ پر کھول دیا گیا ہے۔ مگر کوئی چیز کسی کو خود نہیں مل جاتی۔ اسی کو ملتی ہے جو اس کے لیے جدوجہد کرے اور وہ تمام طریقے کام میں لائے جو حصول مقصد کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن ہر انسان کی ذہنی و جسمانی استعداد یکساں نہیں ہوتی اور چونکہ یکساں نہیں ہوتی اس لیے وسائل معیشت کے حصول کے اعتبار سے بھی سب کی حالت یکساں نہیں ہوئی۔ کسی نے وسائل معیشت پر زیادہ قبو پالیا کسی نے کم، کسی کو کمانے کے زیادہ مواقع حاصل ہوگئے کسی کو تھوڑے۔ پہلے جسمانی قوت میں مقابلہ ہوا اور طاقتور نے کمزور کو مغلوب کیا، پھر ذہن و جسم کا مقابلہ شروع ہوا اور ذہنی قوت نے جسمانی قوت کو مقہور کرلیا۔