وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
اور اگر اللہ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ان کی گرفت (٣٥) کرتا تو زمین پر کسی چوپایا کو نہ چھوڑتا، لیکن وہ تو انہیں ایک وقت مقرر تک کے لیے مہلت دیتا ہے، پس جب ان کا وقت آجائے گا تو وہ ایک گھڑی بھی نہ پیچھے ہوسکیں گے اور نہ آگے۔
آیت (٦١) میں قانون امہال کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی تشریح پچھلی سورتوں کے نوٹوں میں گزر چکی ہے اور مزید تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھنی چاہیے۔ قرآن نے جابجا کہا ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور تبیین حقیقت اور رفع اختلاف کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی جن باتوں کو انسان اپنی عقل و ادراک سے نہیں پاسکتا، اور اس لیے طرح طرح کے اختلافات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کوئی کچھ سمجھنے لگتا ہے کوئی کچھ، وحی الہی نمودار ہوتی ہے تاکہ ان اختلافات کو دور کردے اور بتلا دے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی آیت (٦٤) میں قرآن کے نزول کا ایک مقصد یہ بتلایا کہ (لیبین لھم الذی اختلفوا فیہ) یہ باتیں کون سی ہیں جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں اور جن کا اختلاف بغیر اس کے دور نہیں ہوسکتا کہ کتاب الہی آئے اور پردہ اٹھا دے؟ وہ تمام باتیں جو انسان کے عقل و ادراک کی سرحد سے ماوری ہیں۔ اللہ کی صفات، مرنے کے بعد کی زندگی، عالم معاد کے احوال و ارادات جزائے عمل کا قانو، عالم غیب کے حقائق، یعنی وہ ساری باتیں جن کے اعتقاد و عمل کی درستی سے روحانی سعادت کی زندگی پیدا ہوسکتی ہے۔ انسان جب کبھی اس راہ میں وحی الہی کی روشنی سے الگ ہو کر قدم اٹھاتا ہے اختلاف کی تاریکیوں میں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن جونہی اس روشنی کی نمود میں اا جاتا ہے حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور ہر طرح کے اختلافات و شکوک معدوم ہوجاتے ہیں۔