سورة الحجر - آیت 49

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ میرے بندوں کو خبر (٢٣) کردیں کہ میں ہی بڑا معاف کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہوں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر آیت (٤٩) میں واضح کردیا کہ اس بارے میں قانون الہی کیا ہے ؟ فرمایا بخشش اور رحمت ہے، لیکن جو لوگ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو ان کے لیے عذاب بھی ہے اور یہ عذاب بڑا ہی دردناک ہوتا ہے۔ اس کے بعد گزشتہ قوموں کے ایام و وقائع کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انکار و بدعملی اور شرارت و سرکشی کا نتیجہ کیسے دردناک عذابوں کی شکل میں ظاہر ہوا؟ اس سلسلہ میں صرف تین قوموں کا ذکر کیا ہے جن کی آبادیوں پر سے عرب کے قافلے گزرتے رہتے تھے اور ان کی ہولناک ہلاکتوں کے مناظر ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھے۔ یعنی قوم لوط جس کی بستیاں عرب اور فلسطین کے درمیان شاہراہ عام پر واقع تھیں، قبیلہ مدین جس کی بستی بحر قلزم کے کنارے تھی اور حجاز سے فلسطین کی طرف جائیں خواہ مصر کی طرف، ان کے کھنڈر راہ میں ضرور پڑتے تھے، شہر حجر میں بسنے والی قوم یعنی قوم ثمود جس کا مقام بھی اسی شاہراہ پر واقع تھا، یعنی حجاز اور شام کی شاہراہ پر۔ قرآن میں الساعۃ کا لفظ کہیں تو روز قیامت کے لیے بولا گیا ہے کہیں ایک ایسے فیصلہ کن دن کے لیے جو دعوت حق اور اس کے مخالفوں کے درمیان فیصلہ کردے گا۔ آیت (٨٥) میں الساعۃ سے مقصود ایسا ہی دن ہے قیامت کا دن نہیں ہے جیسا کہ اکثر مفسروں اور مترجموں نے قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح پچھلے رسولوں سے مقابلہ کرنے والے ناکام رہے، اسی طرح اب بھی مخالف و سرکش ناکام رہیں گے اور وہ دن دور نہیں جب حق و باطل کی اس کشمکش کا فیصلہ ہوجائے گا۔