وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ
اور ہم نے تمہارے لیے اس میں زندگی کے اسباب (١٣) پیدا کیے، اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے ہو۔
تفسیر سورۃ فاتحہ میں نظام ربوبیت کی بحث گزر چکی ہے۔ آیت (٢٠) کا اسی روشنی میں مطالعہ کرو اور دیکھو کتنے مختصر اور کیسے سیدھے سادھے لفظوں میں کتنی بڑی حقیقت بیان کردی گئی؟ فرمایا (جعلنا لکم فیھا معایش) ہم نے زمین میں تمہارے لیے زندگی و معیشت کے سارے سروسامان مہیا کردے۔ لیکن کس طرح مہیا کیے؟ اس طرح کہ اگرچہ ہر چیز کے ہمارے پاس ذخیرے ہیں لیکن ان کی بخشش ایک مقررہ اندازے ہی کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بغیر کسی اندازہ اور نظام کے تمام چیزیں بکھیر دی ہوں، اور یہ جو ایک مقررہ اندازہ کا نظام ہے، یعنی تقدیر اشیا کا تو یہی ہے جو بتلا رہا ہے کہ یہاں کوئی اندازہ مقرر کرنے والی اور اسے قائم رکھنے والی ہستی ضرور ہے۔ کیونہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اندازہ و شناسی اور انضباط کے ساتھ ہر ضروری چیز کی بخشش کا نظام قائم ہوجاتا۔