وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ
اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا (١٢) اس پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیئے، اور اس میں ہر مناسب اور موزوں پودا اگایا۔
آیت (١٩) میں زمین کی نسبت تین باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ بچھی ہوئی ہے۔ دوسری یہ کہ پہاڑوں کی بلندیاں ہیں۔ تیسری یہ کہ جتنی چیزیں اس میں اگتی ہیں سب موزوں ہیں۔ موزوں یعنی وزن کی ہوئی، اگر کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک کسی خاص اندازہ پر رکھنا ہوتا ہے تو اسے کانٹے میں تول لیا کرتے ہیں کہ رتی بھر بھی ادھر ادھر نہ ہوجائے۔ پس ہر چیز کے موزوں ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ زمین میں جتنی نباتات اگتی ہیں سب کے لیے حکمت الہی نے ایک خاص اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔ ہر چیز اپنی نوعیت، اپنی کمیت، اپنی کیفیت میں ایک جچی تلی حالت رکھتی ہے جس سے کبھی باہر نہیں جاسکتی۔ ممکن نہیں خہ گھاس کی ایک شاخ بھی ایسی اگ آئے جو گھاس کے مقررہ انداز اور تناسب کے خلاف ہو۔ طرح طرح کے غلے، طرح طرح کے پھول، طرح طرح کے پھل، طرح طرح کی سبزیاں، طرح طرح کے درخت، طرح طرح کی گھاسیں، ہر طرف اگ رہی ہیں اور نہیں معلوم کب سے اگ رہی ہیں لیکن کوئی چیز بھی ان میں ایسی ہے جس کی شکلم ڈیل ڈول، رنگت، خوشبو، مزہ اور خاصہ ایک خاص مقررہ اندازہ پر نہ ہو؟ اور ٹھیک ٹھیک کانٹے کی تول نہ ہو؟ گہیوں کا ایک دانہ اٹھاؤ پھول کی ایک کلی توڑ لو، گھاس کی ایک پتی سامنے رکھ لو اور دیکھو ان کی ساری باتیں کس طرح تلی ہوئی اور کسی دقیقہ سنجی کے ساتھ سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں؟ اگر حجم ہے تو اس کا ایک مقررہ اندازہ ہے۔ لاکھ مرتبہ بوؤ، کروڑ مرتبہ بوؤ، اس اندازہ میں فرق آنے والا نہیں، اگر شکل ہے تو اس کا ایک خاص اندازہ ہے۔ وہ چیز جب اگے گی اسی شکل میں اگے گی۔ اگر رنگت ہے، خوشبو ہے، مزہ ہے، خاصہ ہے، گو سب کا ایک مقررہ اندازہ ہے اور یہ اندازہ قطعی ہے، دائمی ہے، اٹل ہے، انمٹ ہے، اور ہمیشہ اس یکسانی کے ساتھ ظہور میں آتا ہے گویا مٹی کے ایک ایک ذرہ میں ایک ایک ترازو رکھ دیا گیا ہے اور وہ ایک ایک دانے، ایک ایک پتی، ایک ایک پھل کو تول تول کر بانٹ رہا ہے۔ ممکن نہیں اس تول میں کبھی خرابی پڑے۔ موزوں میں تناسب و اعتدال کا مفہوم بھی داخل ہے۔ یعنی جتنی چیزیں اگتی ہیں اپنی ساری باتوں میں تناسب و اعتدال کی حالت رکھتی ہیں۔ کوئی شے نہیں جو اپنی کمیت و کیفیت میں غیر متناسب اور غیر معتدل ہو۔