يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
جس دن (٣٦) اس سرزمین کے علاوہ کوئی اور زمین ہوگی اور آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور تمام لوگ اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے جو ایک ہے، سب پر غالب ہے۔
آیت (٤٨) سے معلوم ہوا کہ جس حادثہ کو قرآن نے قیامت سے تعبیر کیا ہے وہ اجرام سماویہ کا کوئی ایسا حادثہ ہوگا جو کرہ ارضی کو بالکل بدل دے گا۔ نہ تو زمین وہ زمین رہے گی جیسی کہ اب ہے، نہ آسمان ویسا آسمان ہوگا جیسا اب نظر آرہا ہے۔ آخری آیت میں فرمایا : یہ سورت ایک پیام حق ہے اور یہ پیام اس لیے بھیجا گیا ہے کہ : (ا) لوگ فساد و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کیے جائیں۔ (ب) یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (ج) ارباب فہم و دانش کے لیے سرمایہ نصیحت ہو۔ اب سورت کے تمام مطالب پر از سر نو نظر ڈالو اور دیکھو ان تینوں مقاصد پر وہ مشتمل ہے یا نہیں؟