اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ
وہ اللہ کی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے (٢٣) اور آسمان سے بارش بھیجتا ہے، جس کے ذریعہ انواع و اقسام کے پھل پیدا کیے ہیں جو تمہاری روزی کا سامان مہیا کرتے ہیں اور تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر کیا ہے تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کیا۔
آیت (٣٢) میں برہان ربوبیت کا استدلال ہے۔ فرمایا اپنی زندگی کی احتیاجوں کو دیکھو اور پھر ربوبیت الہی کی بخششوں اور کارر فرمائیوں پر نظر ڈالو، زندگی کی کوئی قدرت احتیاج ایسی ہیں ہے جس کا قدرتی انتظام نہ کردیا گیا ہو اور کارخانہ عالم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو تمہارے لیے افادہ و فیضان نہ رکھتا ہو۔ حتی کہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز صرف اسی لیے بنی ہے کہ تمہاری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کردے اور کسی نہ کسی شکل میں خدمت و نفع رسانی کا ذریعہ ہو۔ پھر کیا ممکن ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی ارادہ کے ظہور میں آگیا ہو اور کوئی ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو۔ اور اگر ایک ہستی موجود ہے تو ہر طرح کی عبادتوں کی مستحق اس کی ذات ہے یا ان کی جو اپنی احتیاجوں میں خود کسی پروردگار کی پروردگاریوں کے محتاج ہیں؟