وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
اور ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ پر بھروسہ نہ کریں اور اس نے ہمیں سیدھی راہوں پر چلایا، اور تم جو ہمیں تکلیف دے رہے ہو اس پر ہم یقینا صبر کریں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
آیت (١٢) میں پیغمبروں کا قول نقل کیا ہے کہ (وما لنا الا نتوکل علی اللہ وقد ھدنا سبلنا) اس آیت میں ہدایت اور سبیل سے مقصود ہدایت وحی اور سبیل دین نہیں ہے جیسا کہ مفسروں اور مترجموں نے سمجھا ہے بلکہ ہدیات ربوبیت کا عام فیضان ہے اور اسی میں اسلوب خطاب کا استدلال پوشیدہ ہے، یعنی ہم تمہارے ظلم و تشدد سے کیوں ہراساں ہوں؟ کیوں اللہ کی تائید و نصرت پر بھروسہ نہ کریں؟ جس ہستی نے زندگی و معیشت کی تمام راہوں میں ہماری رہنمائی کا سامان کردیا ہے، کیا حق و باطل کی اس آویزش میں ہم پر راہ نجات نہ کھول دے گی؟ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد کہا : (ولنصبرن علی ما اذیتمونا) ہم ضرور صبر کریں گے اور ضرور ایسا ہوگا کہ صبر کا نتیجہ ہمارے حصہ میں آئے۔ اگر یہاں ہدایت کو ہدایت وحی سمجھا جائے تو خطاب کا سارا زور اور استدلال مفقود ہوجاتا ہے۔