وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
اور جب تمہارے رب نے یہ خبر دی کہ اگر تم شکر (٧) ادا کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ بیشک میرا عذاب سخت ہوتا ہے۔
آیت (٧) میں فرمایا : خدا کا یہ مقررہ قانون ہے کہ جو قوم شکر کرتی ہے، یعنی خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی قدر بجا لاتی ہے اور انہیں ٹھیک طور پر کام میں لاتی ہے خدا اسے اور زیادہ نعمتیں عطا فرماتا ہے جو کفران نعمت کرتی ہے یعنی قدر شناسی نہیں کرتی، وہ محرومی و نامرادی کے عذاب میں گرفتار ہوجاتی ہے اور یہ اللہ کا سخت عذاب ہے، جو کسی انسانی گروہ کے حصے میں آتا ہے۔ غور کرو حقیقت حال کی کتنی سچی تعبیر ہے ؟ جو فرد یا گروہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی قدرت کرتا ہے۔ مثلا خدا نے اسے فتح مندی و کامرانی عطا فرمائی ہے وہ اس نعمت کو پہچانتا، اسے ٹھیک طور پر کام میں لاتا اور اس کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتا، وہ اور زیادہ نعمتوں کے حصول کا مستحق ہوجاتا ہے یا نہیں؟ جو ایسا نہیں کرتا کیا اس کی نامرادی و تباہی میں کوئی شک ہوسکتا ہے ؟ سورۃ ہود کے آخری نوٹ میں ایما و وقائع کا مبحث گزر چکا ہے۔ اسے پیش نظر رکھو اور دیکھو، یہاں تمام ایام و وقائع کے مجموعی نتائج و سنن کس طرح بیان کیے جارہے ہیں اور کس طرح ان کے جزئیات کو ایک کلی حقیقت کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ یعنی سب کا ظہور ایک ہی طرح ہوا تھا، سب کے ساتھ ان کی قوموں نے ایک ی طرح کا سلوک کیا تھا، سب کی دعوت ایک ہی تھی، سب کو جوابات ایک ہی طرح کے ملے تھے اور پھر نتیجہ بھی ہر واقعہ میں ایک ہی طرح کا نکلا۔ ہر رسول اور اسکے ساتھی کامیاب ہوئے، ہر سرکش اور مقابل نامراد ہوا۔ قرآن کے یہی مقامات ہیں جنہوں نے ایما و وقائع کے سنن و بصائر صاف واضح کردیے ہیں اور اس باب میں ہم نے جو مبادی و اصول مرتب کیے ہیں وہ تمام تر انہی تصریحات سے ماخوذ ہیں۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا : کیا پچھلی قوموں کے ایما و وقائع تم تک نہیں پہنچے؟ یعنی تم نہیں سن چکے ہو؟ پھر تین قوموں کا ذکر کیا جن کے حالات سے نہ تو بنی اسرائیل بے خبر تھے، نہ مصر کے باشندے بے خبر ہوسکتے تھے جہاں ان کی نشوونما ہوئی تھی، بقیہ قوموں کا حال چونکہ اس درجہ مشہور نہ تھا اس لیے صرف اشارہ کر کے چھوڑ دیا ( والذین من بعدھم لا یعلمھم الا اللہ) میں یہ پہلو بھی موجود ہے کہ بہت سی قومیں تھیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے۔ تم ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔