وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
اور اہل کفر آپ سے اچھائی سے پہلے برائی کا مطالبہ (٦) کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے (عبرتناک) مثالیں گزر چکی ہیں اور بیشک آپ کا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کی بڑی مغفرت (٧) کرنے والا ہے، اور بیشک آپ کا رب بہت سخت سزا دینے والا بھی ہے۔
آیت (٦) میں انکار و جحود کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے ہے کہ انسان بھلائی کی جگہ برائی کے لیے جلدی مچانے لگتا ہے، یعنی کہنے لگتا ہے اگر انکار و بدعملی کا برا نتیجہ نکلنے والا ہے تو وہ نیتجہ کہاں ہے ؟ کیوں پیش نہیں آجاتا؟ فرمایا اس لیے کہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور درگزر کرنے والا ہے پس فورا نتیجہ بدھ پیش نہیں آجاتا، مہلتوں پر مہلتیں دی جاتی ہیں لیکن جب وقت آجائے تو وہ شدید العقاب بھی ہے، کیونکہ پاداش عمل کبھی ٹلنے والی نہیں اور نہ کسی طرح کی نرمی کرنے والی ہے۔ انسان کی ایک عالمگری گمراہی یہ رہی ہے کہ وہ سچائی کو سچائی میں نہیں ڈھونڈتا بلکہ دوسری چیزوں میں تلاش کرتا ہے۔ ازاں جملہ یہ کہ اچنبھوں اور عجائب کاریوں کو سچائی کی دلیل سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے سب سے ز یادہ سچا انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ عجیب و غریب ہو۔ قرآن نے جن بنیادی گمراہیوں کا ازالہ کیا منجملہ ان کے ایک گمراہی یہ ہے۔ اس نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ دعوت حق کی شناکٹ خود دعوت ہے نہ کہ عجائب و غرائب کا ظہور جسے لوگوں نے دلیل صداقت سمجھ رکھا تھا۔