وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا، اسے میرے پاس لاؤ (٤٤) پس جب ان کے پاس قاصد آیا، تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ، اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کے بارے میں اسے کیا خبر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بیشک میرا رب ان کے مکرو فریب کو خوب جانتا ہے۔
حضرت یوف کا مژدہ رہائی سننا مگر قید خانہ چھوڑنے سے انکار کردینا اور بادشاہ سے کہلانا کہ پہلے میرے قضیہ کی تحقیقات کرلی جائے، بادشاہ کا تحقیق کرنا اور انن کی پاکی و راستی کا آشکارا ہوجانا اور عزیز کی بیوی کا اعلان کرنا کہ وہ سچا ہے، سارا قصور میرا تھا۔ تعبیر سن کر بادشاہ کے دل میں حضرت یوسف کا اس درجہ احترام پیدا ہوگیا کہ اس نے ایک خاص پیام بر ان کے لانے کے لیے بھیجا جسے آیت (٥٠) میں رسول سے تعبیر کیا ہے، لیکن حضرت یوسف نے تعمیل حکم سے انکار کردیا، انہوں نے کہا میں اس طرح رہا ہونا پسند نہیں کرتا۔ پہلے میرے معاملہ کی تحقیقات کرلی جائے کہ مجھے قید میں کیوں ڈالا گیا؟ اگر میں مجرم ہوں تو رہائی کا مستحق نہیں، اگر مجرم نہیں ہوں تو بلاشبہ مجھے رہا ہونا چاہیے۔