وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور شہر کی کچھ عورتوں نے کہا (٢٨) کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو گناہ پر ابھارتی ہے، اس پر فریفتہ ہوگئی ہے، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھ رہے ہیں۔
آیت (٣٠) میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، یہ حضرت یوسف کے جمال سیرت کا ایک دوسرا مظاہرہ ہے اور پہلے سے بھی زیادہ عظیم ہے، ضروری تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ ضمنا یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اس زمانہ کی مصری معاشرت کس درجہ شائستہ ہوچکی تھی؟ ضیافت کی مجلسیں خاص طور پر آراستہ کی جاتی تھیں۔ نشست کے لیے مسندیں لگائی جاتی تھیں کھانے کے لیے ہر شخص کے سامنے چھری رکھی جاتی تھی، مسندوں کے اہتمام کا حال اس سے معلوم ہوگیا کہ (واعتدت لھن متکا) مصر کے آثار قدیمہ اور یونانی مورخوں کی شہادت سے جو حالات روشنی میں آئے ہیں ان سے بھی اس متمدن معاشرت کی تصدیق ہوتی ہے۔ خصوصا ان نقوش سے جن میں امراء کی مجلسوں کا مرقع دکھایا گیا ہے اور جو قرآن کے ان اشارات کی پوری تفسیر ہیں۔