فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
پس تم لوگ مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر اد کرو اور ناشکری نہ کرو
کتاب و حکمت کی تعلیم، شخص نبوت کی پیغمبرانہ تربیت، مرکز ہدایت کا قیام اور نیک ترین امت ہونے کا نصب العین، ییہ وہ بنیادی عناصر تھے جن کی موعودہ امت کی نشوونما کے لیے ضرورت تھی۔ جب یہ تمام مراتبط ظہور میں آگئے تو اب ضوری ہوا کہ پیروان دعوت قرآنی کو مخاطب کیا جائے اور سرگرم عمل ہوجانے کی دعوت دی جائے۔ چنانچہ فاذکرونی اذکرکم سے یہی مخاطبہ شروع ہوتا ہے۔ اور پھر چونکہ سرگرم عمل ہونے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ راہ عمل کی مشکلیں اور آزمائش پیش آتیں، اس لیے دعوت عمل کے اتھ ہی صبر و استقامت اور جاں فروشی و قربانی کی بھی دعوت دے دی گئی، اور واضح کردیا گیا کہ اس راہ میں آزمایشوں سے گرزنا ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی ان اصول و مہمات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا جن میں ثابت قدم ہونے کے بعد گمراہی و ناکامی سے قدم محفوظ ہوجا سکتے ہیں۔ صبر اور نماز کی قوتوں سے مدد لو۔ صبر کی حقیقت یہ ہے کہ مشکلات و مصائب کے جھیلنے اور نفسانی خواہشوں سے مغلوب نہ ہونے کی قوت پیدا ہوجائے۔ نماز کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ذکروفکر سے روح کو تقویت ملتی رہے۔ جس جماعت میں یہ دو قوتیں پیدا ہوجائیں گی، وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتی ! راہ حق میں موت، موت نہیں ہے۔ سرتاسر زندگی وہدایت ہے۔ پس موت کے خوف سے اپنے دلوں کو پاک کرلو۔