فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
پس آپ کو جیسا کہ حکم دیا گیا ہے، راہ حق پر قائم رہئے (٩١) اور وہ لوگ بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کیا ہے، اور تم لوگ اللہ سے سرکشی نہ کرو، وہ بیشک تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔
پھر آیت (١١٢) میں پیغبر اسلام کو اور ان کے ان ساتھیوں کو جو ابتدائے عہد کی بے سروسامانیوں اور مظلومیوں میں ایمان لائے تھے مخاطب کیا ہے اور حسب ذیل کی تلقین کی ہے، یہ ان کے لیے اس سورت کی موعظت کا خلاصہ ہے : (ا) جو راہ بتلا دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو اور اپنا کام کیے جاؤ۔ (ب) اپنی حد سے تجاوز نہ کرو، یعنی استقامت کار کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مخالفوں پر کسی طرح کی زیادتی کرنے کا خیال کرنے لگو۔ یا لڑنے جھگڑنے لگو، اپنے دائرہ کے اندر رہو، مگر اپنے طریقہ پر قائم رہو۔ (ج) لیکن یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ مخالفوں کی طرف جھک پڑو اور نتیجہ یہ نکلے کہ ان کی گمراہی کی چھینٹ تم پر بھی پڑجائے۔ (د) نماز کو اس کی ساری حقیقتوں کے ساتھ اس کے تمام وقتوں میں ادا کرو، تمہاری طاقت کا اصلی سرچشمہ یہی ہے۔ یہ بڑی نیک عملی ہے اور نیک عملی برائیاں دور کردیتی ہے۔ (ہ) صبر کرو، اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ نیک کرداروں کا اجر ضائع نہیں کرتا، یعنی ضروری ہے کہ آخر کار کامیابی انہی کے حصہ میں آئے۔ (و) یہ پچھلی قومیں جو یک سر ہلاک ہوگئیں تو اس لیے ہوئیں کہ ان میں اہل خیر و صلاح معدوم ہوگئے تھے، کوئی نہیں رہا تھا جو شر و فساد سے روکے، اگر ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے موجود ہوتے تو کبھی اس نتیجہ سے دو چار نہ ہوتے، کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بستی پر عذاب آئے اور اس کے باشندے مصلح ہوں۔ اس بات میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر تم اپنی راہ میں مستقیم رہے اور ایک گروہ داعیان حق کا پیدا ہوگیا تو یہ سرزمین عذاب استیصال سے محفوظ رہے گی، یعنی ایسے عذاب سے جو یک قلم نابود کردینے والا ہوجیسا کہ پھچلی قوموں پر آچکا ہے۔ (ز) یاد رکھو دنیا میں اختلاف فکرو عمل ناگزیر ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ سب ایک ہی راہ چلنے والے ہوجائیں اور حق و باطل کی کشمکش باقی نہ رہے، پس اس بات سے مایوس نہ ہو کہ تمام آدمی کیوں دعوت حق قبول نہیں کرلیتے؟ نہ تو پہلے ایسا ہوا نہ اب اس کی توقع رکھینی چاہیے بہت سے مانیں گے، بہت سے نہیں مانیں گے، تم اپنے کام میں سرگرم ریو۔