وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
اور اگر آپ اہل کتاب کے سامنے تمام نشانیاں (215) پیش کردیں گے، تب بھی وہ آپ کے قبلہ کو نہ مانیں گے، اور نہ آپ ان کے قبلہ کو مانیں گے (216) اور نہ وہ لوگ ایک دوسرے کے قبلہ کو ماننے (217) والے ہیں، اور اگر آپ نے (اللہ کی طرف سے) آپ کے پاس علم آجانے کے بعد ان کی خواہشات (218) کی اتباع کی تو بے شک آپ ظالموں (219) میں سے ہوجائیں گے
یہود اور نصاری کا تحویل قبلہ پر اعتراض کرنا محض گروہ پرستی کے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر ان میں حق پرستی ہوتی تو وہ آپس میں کیوں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے اور کیوں ایسا ہوتا کہ یہودی عیسائیوں کا قبلہ نہیں مانتے اور عیسائیوں کو یہودیوں کے قبلہ سے انکار ہوتا؟ پس جب صورت حال ایسی ہے تو متبع حق کو چاہیے ایسے لوگوں کے اتفاق و یک جہتی سے قطع نظر کرلے۔ کیونکہ جن لوگوں نے اتباع حق سے یک قلم کنارہ کشی کرلی ہے ان کے ساتھ متبع حق کا کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا