وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ
اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر اسے اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ ناامید (١٠) ہوجاتا ہے، اور ناشکری پر اتر آتا ہے۔
آیت (٩) میں فطرت انسانی کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر مصیبت پیش آتی ہے تو فورا مایوس ہوجاتا ہے، راحت پیش آیت ہے تو بے پروا ہو کر ڈینگیں مارنے لگتا ہے۔ پھر آیت (١١) میں فرمایا اس عام حالت سے وہ مستثنی ہیں جن کے اندر صبر ثبات کی روح پیدا ہوگئی ہے اور جنہوں نے نیک عملی کی راہ اختیار کی ہے، وہ نہ تو مصیبت میں مایوس ہونے والے ہیں اور نہ عیش و راحت میں غافل و ناشکر گزار۔ یہاں یہ بات اس لیے بیان کی گئی کہ منکرین حق عذاب کی خبر سن کر ہنسی اڑاتے تھے اور مومنوں پر مصیبت کی گھڑیاں شاق گزرتی تھیں۔ پس فرمایا منکروں کی یہ حالت کوئی غیر معمولی حالت نہیں ہے، انسان خوش حالیوں میں پڑ کر اسی طرح غافل ہوجاتا ہے اور ڈینگیں مارنے لگتا ہے لیکن مومنوں کو چاہیے وقت کی مصیبتوں سے دل تنگ ہو کر مایوس نہ ہوجائیں۔ دنیا میں ایک انسان کی زبان سے جتنی باتیں نکل سکتی ہیں ان میں کوئی بات بھی اس سے بڑھ کر بوجھل اور تھکا دینے والی نہیں کہ ایک آدمی ایک مطمئن اور خوش و خرم قوم کے سامنے آکھڑا ہو اور اچانک اعلان کردے کہ تمہاری ہلاکت کی گھڑی سر پر آگئی۔ اگر سرکشی سے باز نہ آؤ گے تو نیست و نابود کردیے جاؤ گے۔ کتنا بڑا اور عجیب اعلان ہے؟ کتنی عظیم اس کی ذمہ داری ہے؟ اور کس درجہ مافوق انسانیت صبر و تحمل کی ضرورت ہے کہ وہ سب کچھ جھیل لیا جائے جو یہ اعلان سن کر لوگوں کی زبانوں سے نکلے گا؟ لیکن خدا کے رسولوں کو یہ بوجھ اٹھانا پڑا، کیونکہ وہ اس کے لیے مامور من اللہ تھے۔ یہی مرحلہ پیغمبر اسلام کو بھی درپیش تھا۔ اسی لیے وحی الہی جابجا اس بات پر زور دیتی ہے کہ لوگوں کی باتوں سے دل تنگ نہ ہو اور اعلان امر میں ذرا بھی تامل نہ کرو۔ چنانچہ آیت (١٢) میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ منرکین حق کہتے تھے اگر خدا کے یہاں ایسی ہی تمہاری رسائی ہے تو کیوں نہیں کہتے ایک خزانہ تم پر اتار دے یا فرشتے بھیج دے کہ تمہاری باتوں کی سب کے سامنے تصدیق کردیں؟ فرمایا ان کے اس انکار و استہزا سے دل تنگ نہ ہو۔ کیونکہ تم تو صرف نذیر ہو، کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو کہ ان کے مان لینے کے بھی ذمہ دار ہو۔ نذیر کی حیثیت پر زور دے کر یہ بات بھی واضح کردی کہ پیغمبر اس لیے نہیں آتے کہ خزانے بانٹتے پھریں یا طرح طرح کے اچنبھے دکھائیں، ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ انکار و بدعملی کے نتائج سے خبردار کردیں اور سچائی کی راہ دکھا دیں۔