أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۚ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ
کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت (٢) نہ کرو، بیشک میں اس کی طرف سے تمہیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔
سب سے پہلے اس بات کا اعلان کیا ہے جو اول دن سے تمام دعوتوں کا عالمگیر اعلان رہا ہے یعنی : (ا) اللہ کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو۔ (ب) میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور اس لیے مامور ہوں کہ تبشیر اور تنذیر کا فرض رسالت ادا کردوں یعنی انکار و سرکشی کے نتائج سے خبردار کردوں۔ ایمان و نیک عمل کی کامرانیوں کی خوشبخری سنا دوں۔ (ج) پس سرکشی سے باز آجاؤ اور توبہ و استغفار کرو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو مجھے اندیشہ ہے تم عذاب الہی میں گرفتار ہوجاؤ گے۔ اس کے بعد فرمایا تمہارے اعمال کا ذرہ ذرہ اللہ کے سامنے ہے، اس کے علم سے جب ایک چیونٹی کا سوراخ بھی پوشیدہ نہیں تو انسان کے افکار و اعمال کیونکر پوشیدہ رہ سکتے ہیں؟ غور کرو قرآن کے ایک ایک لفظ میں کیسی دقیق مناسبتیں پوشیدہ ہوتی ہیں؟ سورت کی تمام موعظت کا مرکزی نقطہ جزا عمل کا معاملہ ہے کیونکہ تمام دعوتوں نے اس کا اعلان کیا اور تمام جماعتوں پر یہ طاری ہوا۔ پس پہلی آیت میں قرآن کا صرف یہی وصف بیان کیا کہ احکمت ایاتہ اس کے مطالب مضبوط اور ثابت ہیں۔ یعنی اس کی کوئی بات ایسی نہیں جو کمزور کچی نکلے پھر فرمایا من لدن حکیم خبیر اس کی طرف سے جو حکیم اور خبیر ہے، یعنی چونکہ وہ حکیم ہے اس لیے ضروری تھا کہ جزائے عمل کا قانون ظہور میں آئے۔ ساتھ ہی وہ خبیر بھی ہے اس لیے ممکن نہیں کہ کوئی عمل اس سے پوشیدہ رہ جائے اور جزائے عمل کا نفاذ ٹھیک ٹھیک نہ ہو۔