وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب انسان کو تکلیف (١٢) پہنچتی ہے تو اپنے پہلو کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا اس نے اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جو اسے پہنچی تھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔
آیت (١٢) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رنج و مصیبت کی حالت میں انسان کے اندر وجدانی طور پر یہ ولولہ اٹھتا ہے کہ ایک بالا تر ہستی موجود ہے جو میرا دکھ درد دور کرسکتی ہے اور اسی کو پکارنا چہایے، لیکن جب مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر عیش و راحت کی غفلتوں میں پڑ کر اسے بھول جاتا ہے، گویا کبھی اس نے کسی کو پکارا ہی نہ تھا۔ قرآن نے جابجا انسان کی اس فطری حالت سے استشہاد کیا ہے کیونکہ مصیبت اور بے بسی کی حالت میں بے اختیار اس ولولہ کا اٹھنا اس امر کو ثبوت ہے کہ انسانی فطرت اپنے اندرونی اندارک میں خدا کی ہستی کا اعتقاد رکھتی ہے اور اعراض و غفلت کی حالت وجدانی نہیں ہے خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔ آگے چل کر آیت (٢٢) میں بھی یہی بات ملے گی۔ لیکن ایک دوسرے اسلوب موعظت میں۔ مشرکین عرب پیغبر اسلام کی صداقت و فضیلت سے انکار نہیں کرسکتے تھے اس لیے کہتے تھے ہم تمہاری بات سننے کے لیے تیار ہیں مگر تم ایسی باتیں کہتے ہو جنہیں ہم قبول نہیں کرسکتے۔ تم کوئی دوسرا قرآن لاؤ یا اسی کے مطالب ایسے کردو کہ ہمارے پرانے عقیدوں کے خلاف نہ ہوں، فرمایا یہ کچھ میرے جی کی من گھڑت نہیں ہے کہ تمہاری فرمائش کے مطابق بنا دوں، میں تو خود اللہ کی وحی کا تابع فرمان ہوں، جو کچھ مجھ پر وحی ہوتی ہے تمہیں سنا دیتا ہوں، اگر اس کے حکم سے نافرمانی کروں تو اس کی پکڑ سے مجھے بچانے والا کون ہے ؟