التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
وہ مومنین توبہ (٩٠) کرنے والے، عبادت کرنے والے، اللہ کی تعریف کرنے والے، اللہ کے دین کی خاطر زمین میں چلنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، بھلائی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں اور آپ مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے۔
آیت (١١٢) اس سورت کی مہمات معارف میں سے ہے۔ فرمایا، سچے مومنوں کے اوصاف و مدارج یہ ہیں کہ : (ا) التائبون۔ یعنی وہ جو اپنی توبہ میں سچے اور پکے ہوتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرتے اور اپنی غفلتوں اور لغزشوں پر نادم رہتے ہیں۔ (ب) العابدون یعنی وہ جو اللہ کی عبادت میں سرگرم رہتے ہیں اور ان کی ساری بندگیاں اور نیاز مندیاں صرف اسی کے لیے ہوتی ہیں۔ عبادت سے مقصود عبادت خاص بھی ہے اور عام بھی، خاص یہ کہ خاص وقتوں اور خاص شکلوں کی عبادت جو دین حق نے قرار دے دی ہے اسے پورے اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرے، عام یہ کہ انسان کی فکری حالت عبادت گزارا نہ ہوجائے اور پھر وہ جو کچھ بھی سنے، جو کچھ بھی کہے، جو کچھ بھی کرے سب میں ایک عابدانہ روح کام کر رہی ہے۔ (ج) الحامدون : یعنی وہ جو اپنے فکر سے اور قول سے اللہ کی حمد و ستائش کرنے والے ہیں، فکر سے حمد و ستائش یہ ہوئی کہ بحکم (ویتفکرون فی خلق السماوات والارض) آسمان و زمین کی خلقت میں غور و فکر کرنا، اور ان تمام کار فرمائیوں کی معرفت حاصل کرنا جو اس کی محمودیت و جمال پر دلالت کرتی ہیں۔ قول سے حمد و ستائش اس فکری حالت کا قدرتی نتیجہ ہے، کیونکہ جس ہستی کی محمودیت دل و دماغ میں بس جائے گی ضروری ہے کہ زبان سے بھی بے اختیار اس کی حمد و ثنا کے ترانے نکلنے لگیں۔ (د) السائحون : وہ جو راہ حق میں سیروسیاحت کرتے ہیں یعنی بحکم (قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض) زمین میں عبرت و نظر کے لیے گردش کرتے ہیں علم کی ڈھونڈھ میں نکلتے ہیں راہ حق میں جدوجہد کرتے ہوئے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کا رخ کرتے ہیں، حج کے لیے خشکی و تری کی مسافتیں قطع کرتے رہتے ہیں۔ (ہ) (الراکعون الساجدون : وہ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں اور رکوع و سجود سے کبھی نہیں تھکتے۔ یہ رکوع و سجود کی حالت جسم پر بھی طاری ہوتی ہے، قلب پر بھی طاری وہتی ہے اور زبان پر بھی طاری ہوتی ہے۔ (و) الامرون بالمعروف والناھون عن المنکر : وہ جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ یعنی صرف اپنے ہی نفس کی اصلاح پر قانع نہیں ہوجاتے بلکہ دوسروں کی بھی اسلاح کرتے اور دنیا میں حق و عدالت کے نشر و قیام کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ (ز) الحافظون لحدود اللہ : یہ آخری وصف اور آخری مقام ہوا یعنی وہ جو ان تمام حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں جو اللہ نے انسان کے لیے ٹھہرا دی ہیں۔ قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ تمام واجبات و حقوق کو خواہ افراد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں خواہ جماعت سے وہ حدود اللہ سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی یہ حدیث ہیں جو مقرر کردی گئی ہیں۔ ان کے ٹوٹنے میں انسانی امن و سعادت کی بنیادوں کو ٹوٹ جانا ہے۔ یہ کل سات وصف ہوئے اور جس ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں وہ قابل غور ہے۔ یہ گویا نفس انسانی کے تزکیہ و ترقی کے سات درجے ہیں یا سات طبقے جو یکے بعد دیگرے ٹھیک اسی ترتیب سے سلوک ایمانی میں پیش آتے ہیں۔ جب کوئی انسان راستی و ہدایت کی راہ میں قدم اٹھائے گا تو قدرتی طور پر پہلا مقام توبہ و انابت ہی کا ہوگا۔ یعنی پھچلی غفلتوں اور گمراہیوں سے (خواہ وہ کفر کی ہوں خواہ نفاق کی خواہ معاصی و زلات کی) باز آئے گا اور آئندہ کے لیے ان سے بچنے کا عہد کرے گا اور اپنے سارے دل اور ساری روح سے اللہ کی طرف رجوع ہوجائے گا۔ اور یہی توبہ کی حقیقت ہے۔ پھر اگر توبہ سچی ہوگی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ کی بندگی و نیاز مندی کی سرگرمی پیدا ہوجائے۔ پس یہ دوسری منزل ہوئی یا سلوک ایمانی کا دوسرا طبقہ۔ پھر چونکہ عبادت گزاری کی زندگی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ فکر اور ذکر کا مقام حاصل ہوجائے اور (ملکوت السموات والارض) کے مشاہدہ و معرفت کا دروازہ کھل جائے اس لیے تیسری منزل تحمید و تسبیح کی منزل ہوئی یعنی اللہ کی حمد و ثنا کے جوش سے معمور ہوجانے کی منزل کہ (ربنا ماخلقت ھذا باطلا) پھر اگر توبہ و انابت کا تنبہ، عبادت کا ذوق اور تحمید و تسبیح کا عرفان کامل درجہ کا ہے تو ممکن نہیں کہ وہ مومن صادق کو گھر میں چین سے بیٹھنے دے۔ ضروری ہے کہ وطن و مکان کی الفت کی زنجریں ٹوٹیں اور سیر و سیاحت میں قدم سرگرم ہوجائیں۔ پس یہ چوتھی منزل ہوئی اور السایحون کا طبقہ چوتھا طبقہ ہوا۔ ان چار منزلوں سے جو کاروان عمل گزر گیا اس نے اصلاح نفس کی مسافت طے کرلی۔ پس اب پانچویں منزل (الراکعون الساجدون) کی ہوئی۔ یعنی بندگی و نیاز مندی میں پورے ہوگئے اور اللہ کے آگے سرنیاز ہمیشہ کے لیے جھک گیا۔ اب (امرون بالمعروف وناھون عن المنکر) کا مقام انہیں حاصل ہوجائے گا یعنی اپنی تعلیم و تربیت کا معاملہ پورا کر کے دوسروں کے لیے معلم و مربی ہوجائیں گے۔ چنانچہ چھٹی منزل یہی ہوئی اور اسی سے آخری منزل کے ڈانڈے مل گئے کہ (الحافظون لحدود اللہ) کا مقام ہے یہاں پہنچ کر ان کے تمام اعمال حدود الہی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ خود اپنے اعمال میں بھی حدود اللہ کی کامل نگہداشت رکھتے ہیں اور اپنے وجود سے باہر بھی ان کے نفاذ و قیام کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نیک مقصد سے سیر و سیاحت کرنا سچے مومنوں کا بہترین عمل ہے اور ان اعمال میں سے ہے جن کے ذریعہ وہ ایمان کے مدارج طے کرتے اور خصائص ایمانی میں کامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس سرعت کے ساتھ صدر اول کے مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی، اور جب تک اسلام کی عملی روح زندہ رہی ان سے بڑھ کر زمین کی مسافتیں قطع کرنے والی کوئی قوم نہ تھی۔ وہ سیاحت کو سیاحت سمجھ کر نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کی عبادت سمجھتے تھے۔ اور فی الحقیقت سیاحت نہ صرف ایک تنہا عبادت ہے بلکہ کتنی ہی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ گھر بار چھوڑنا، عزیز و اقارب کی جدائی برداشت کرنا، سفر کی مشقتوں میں پڑنا، قدم قدم پر مال خرچ کرنا، آب و ہوا کی ناموافقت، اجنبیوں سے صحبت و معاملت اور پھر ان تمام موانع ومشکلات میں عزم و عمل کا استوار رہنا ایثار و تحمل کے کتنے مرحلے طے کرنے پڑتے ہیں تب کہیں جاکر یہ عمل انجام پاتا ہے۔ سورۃ تحریم میں یہی وصف مسلمان عورتوں کے لیے بھی فرمایا (مومنات قانتات تائبات عابدات سائحات) اللہ کی فرمانبردار، برائیوں سے پرہیز کرنے والیاں، عبادت گزار، سیاحت میں سرگرم اور روایات سے ثابت ہے کہ نہ صرف صحابہ کرام کی بیبیاں، بلکہ خود پیغمبر اسلام کی ازواج مطہرات بھی جنگ میں نکلتی تھیں اور مجاہدین کی خدمت کرتی تھیں۔ بعد کو اس بارے میں جو حال رہا وہ شرح و بیان سے مستغنی ہے۔ بعضوں کو اس پر تعجب ہوا کہ سیر و سیاحت کا شمار بھی خصائص ایمانی ہو اس لیے السائحون اور السائحات کے لغوی اور مصطلحہ معنی سے گریز کرنے لگے لیکن فی الحقیقت ان کا تعجب محل تعجب ہے۔ قرآن نے ہجرت کو ایمان کا بہترین عمل قرار دیا ہے جو گھر بار چھوڑ کر نکلنا ہے، اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے فرمایا (انفروا خفافا و ثقالا) اور حج ہر مستطیع مسلمان پر مرد ہو یا عورت فرض کردیا جو باشندگان مکہ کے علاوہ سب کے لیے بڑی سے بڑی سیاحت ہی ہے۔ یاتین من کل فج عمیق۔ نیز جابجا زور دیا کہ ملکوں کی سیر کرو، پچھلی قوموں کے آثار و باقیات سے عبرت پکڑو، ان کے عروج و زوال کے حالات و بواعث کا کھوج لگاؤ۔ (افلم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم) خدا کی قدرت و حکمت کی ان نشانیوں پر غور کرو جو زمین کے چپہ چپہ میں پھیلی ہوئی ہیں : (وکاین من ایۃ فی السموات والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون) اور اسی سورت میں یہ حکم پڑھو گے کہ طلب علم کے لیے گھروں سے نکلو اور علم کے مرکزوں میں پہنچو : (فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم؟) اور تجارت کے سفر کو بھی فضل الہی کی جستجو سے تعبیر کیا۔ حتی کہ حج کے موقع پر بھی اس کی اجازت دی۔ (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم) جبکہ سیرو سیاحت کے یہ صریح احکام موجود ہیں تو پھر کونسی وجہ ہے کہ یہاں اس وصف کی موجودگی موجب تعجب ہو؟