وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور (یاد کرو) جب ابراہیم (١٨٢) کو ان کے رب نے چند باتوں (١٨٣) کے ذریعہ آزمایا، تو انہوں نے ان سب کو پورا کردکھلایا، اللہ تعالیٰ نے کہا، میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، کہا : اور میری اولاد میں سے بھی۔ تو اللہ نے فرمایا : ظالم لوگ (١٨٤) میرے اس وعدہ میں داخل نہیں ہوں گے
یہود نصای اور مشرکین عرب تینوں گروہوں کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت ایک مسلمہ شخصیت تھی۔ اس ؛ ہئ ام لہ دعوت سے استشہاد تینوں کے لیے ناقابل انکار استشہاد تھا مذہبی گروہ بندی کے خلاف، تینوں گروہوں کے ایک حجت قاطع ہے یہ ظاہر کہ تینوں گروہ بندیاں اور ان کے عقائد و رسوم حضرت ابراہیم کے بہت بعد پیدا ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ کیا تھا؟ یقینا وہ ان گروہ بندیوں کا طریقہ نہ تھا۔ پس جو طریقہ ان کا تھا اسی کی دعوت قرآن دیتا ہے۔ یہودیوں کی جماعتی سرگرانی زیادہ تر نسلی غرو کا نتیجہ تھی۔ وہ کہتے تھے ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ اور تورات میں ہے کہ خدا نے اس کی نسل کو برکت دی۔ اس بیان نے واضح کردیا کہ اول تو نسل کے شرف میں بنی اسحاق کی طرف بنی اسماعیل بھی شریک ہیں پھر وہ جو کچھ بھی ہو خدا کا عہد برکت نیک کرداروں کے لیے تھا نہ کہ بدکرداروں کے لیے۔ جن لوگوں نے ایمان و عمل کی سعادت کھو دی ان کے لیے نسل کا امتیاز کچھ سود مند نہیں ہوسکتا تھا ! پچھلی امتوں کی محرومیوں کے ذکر کے بعد یہ حقیقت واضح کرنی تھی کہ اب توفیق الٰہی نے پیروان دعوت قرآن کو خدمت حق کے لیے چن لیا ہے اور اقوان عالم کی ہدایت کا سر رشتہ ان کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے دعوت قرآن کے ظہور کی معنوی تاریخ بیان کردی جائے۔ چنانچہ معبود کعبہ کی تعمیر اور حضرت ابراہیم کی دعا کا ذکر اسی غرض سے کیا گیا ہے کہ آنے والے بیان کے لیے ایک قدرتی تمہید کا کام دے۔