لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ
جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ آپ سے اجازت نہیں مانگتے ہیں کہ اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے سے پیچھے رہ جائیں، اور اللہ تقوی والوں کو خوب جانتا ہے
آیت (٤٤) میں فرمایا جن کے دلوں میں ایمان کی لگن ہے بھلا وہ ایک ایسے کام میں کیوں اجازت مانگنے لگے؟ اور کیوں اس کے انتظار میں بیٹھنے لگے؟ ان کے لیے تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ادائے فرض کا وقت آگیا اور جسے ایمان عزیز ہے وہ ادائے فرض کے لیے مستعد ہوجائے، حکم تو وہی مانگیں گے جن کے دلوں میں سچا ایمان نہیں اور جو شک کے روگی ہورہے ہیں تاکہ کوئی نہ کوئی راہ نکل بھاگنے کی مل جائے۔ چونکہ مقابلہ بیز نطافی شہنشاہی سے تھا جو مشرق میں رومۃ الکبری کی عظمت کی جانشین تھی اور ابھی حال میں ایران کو شکست دی چکی تھی اس لیے منافقوں کو یقین تھا مسلمانوں کے خاتمہ کے دن آگئے، عبداللہ بن ابی بن سلول نے جو منافقوں کا سرغنہ تھا لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ پیغمبر اسلام اس سفر سے لوٹنے والے نہیں۔