انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
(مسلمانو ! راہ جہاد میں نکلو (33) ہلکے ہو تب اور بھاری ہو تب، اور اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اگر تمہارے پاس کچھ علم ہے تو (جان لو کہ) یہی تمہارے لیے بہتر ہے
آیت (٤١) میں فرمایا خفافا و ثقالا خواہ ہلکے ہو خواہ بوجھل۔ یہاں اس سے مقصود کیا ہے؟ تو حق یہ ہے کہ استعداد اور کمی استعداد کی تمام حالتیں اس میں داخل ہیں۔ نوجوان نکل چلنے میں ہلکا ہوتا ہے، زیادہ عمر کا آدمی بوجھل ہوتا ہے۔ سرگرم آدمی فورا اٹھ کھڑا ہوگا، کسلمند کے قدم بوجھل ہوں گے، جس کے علائق زیادہ ہیں وہ اپنے آپ کو اتنا ہلکا نہ پائے گا جتنا ایک مجرد آدمی یا کم علائق رکھنے والا۔ اسی طرح کوئی سازو سامان سفر سے ہلکا ہوگا۔ کوئی اسلحہ جنگ سے، اگر قرآن کے سمجھنے میں ہمیں صحابہ و سلف کے فہم کا اعتبار کرنا چاہیے نہ کہ بعد کہ ٠ منقطی اصولیوں اور جدلی فقیہوں کا تو انہوں نے اس طرح کی ساری صورتیں اس میں داخل سمجھی تھیں اور جب کبھی جنگ کا عام اعلان ہوجاتا تو کسی حال میں بھی وہ اپنے شرک سے معاف نہیں رکھتے تھے۔ الا یہ کہ قطعا عاجز و معذور ہوں۔ ابو راشد حراتی کہتے ہیں میں نے مقداد بن اسود کو حمص میں دیکھا، جنگ کے لیے نکل رہے تھے، میں نے کہا خدا نے تو تمہیں معذور ٹھہرا دیا ہے (یعنی بوڑھے ہو) انہوں نے کہا (انفروا خفافا و ثقالا) کا کیا جواب ہے؟ حیان ابن زید شرعبی سے مروی ہے کہ میں نے افسس جاتے ہوئے فوج میں ایک نہایت بوڑھے آدمی کو دیکھا جس کی بھویں آنکھوں پر آگری تھیں۔ میں نے متعجب ہو کر کہا کیا خدا نے معذوروں کو کو معاف نہیں کردیا؟ اس نے کہا خدا نے تو ہمیں ہر حال میں نکل کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے : (خفافا و ثقالا) ابو ایوب انصاری سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ (ابن جریر) یہ آیت اس باب میں قطعی ہے کہ جب دفاع کے لیے امام بلائے تو بجز ان معذوروں کے جنہیں آگے چل کر آیت (٩١) میں مستثنی کردیا ہے، ہر شخص پر واجب ہوجاتا ہے کہ جان و مال سے شریک جہاد ہو اور اس بارے میں کوئی عذر مسموع نہیں۔