لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
اللہ تعالیٰ نے بہت سی جگہوں میں تمہاری مدد کی، غزوہ حنین (20) کے دن مدد کی جب تمہاری کثرت نے تمہارے اندر عجب پیدا کردیا تھا، لیکن وہ تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑے
آیت (٢٥) میں جنگ حنین کی طرف اشارہ ہے۔ ٨ ھ میں فتح مکہ کے بعد قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے بنی نصر اور بنی ہلال کے ساتھ ملکر مسلمانوں پر حملہ کردیا تو پیغبر اسلام مکہ سے نکلے اور حنین نامی وادی میں مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں سے تین گنا زیادہ تھی اس لیے لوگوں کو اپنی کثرت تعداد کا گھمنڈ ہوگیا تھا۔ کہتے تھے اب وہ دن نہیں رہا کہ تعداد کی کمی کی وجہ سے مغلوب ہوجائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وقت پر تعداد کی کثرت کچھ کام نہ آئی، اور فتح مندی ہوئی تو محض پیغمبر اسلام اور ان کے ساتھ مٹھی بھر مسلمانوں کے عزم و ہمت سے مسلمانوں کو پہاڑ کی ایک تنگ گھاٹی سے گزرنا تھا۔ وہاں دشمنوں کے تیر انداز گھات لگائے بیٹھے تھے۔ مسلمانوں کی فوج میں دو ہزار مکہ کے نو مسلم اور بعض معاہد مشرک بھی تھے، جونہی انہوں نے قدم بڑھایا دشمنوں نے تیروں پر رکھ لیا اور اچانک ان کے قدم اکھڑ گئے۔ انہیں بھاگتا دیکھ کر تمام لشکر نے بھی بھاگنا شروع کردیا۔ قریب تھا کہ شکست ہوجائے مگر اللہ نے پیغمبر اسلام کے قلب مبارک کو اپنے سکون و قرار کی روح سے معمور کردیا۔ آپ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ اصحابہ سمرہ کو پکاریں، یعنی صلح حدیبیہ ئکے موقع پر بیعت رضوان والوں کو، ان کی ندا کا بلند ہونا تھا کہ ہمت و شجاعت کی نئی لہر سب کے دلوں میں دوڑ گئی اور پھر لوٹ کر اس بے جگری سے حملہ کیا کہ دشمنوں کے قدم اکھاڑ دیئے۔ یہ حادثہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی تادیب تھی تاکہ محض کثرت تعداد ہی کو کامیابی کی بنیاد نہ سمجھ لیں۔ بلاشبہ تعداد کی کثرت بھی موجبا تفتح میں سے ہے۔ لیکن صرف اسی سے فتح مندی نہیں مل سکتی، اصلی چیز دل کی استعداد ہے اور وہ موجود ہو تو مٹھی بھر انسان سینکڑوں انسانوں پر غالب آسکتے ہیں۔ فرمایا اللہ نے تمہیں بہت سی جنگوں میں نصرت دی حالانکہ تم بہت تھوڑے تھے اور ڈرتے تھے کہ کامیابی نہیں ہوگی، اور پھر حنین کے دن بھی فتح مندی دی جبکہ تمہیں اپنی کثرت تعداد کا نمرہ تھا اور کثرت تعداد نے کچھ کام نہیں دیا تھا۔