كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
مشرکوں کا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کیسے کوئی عہد و پیمان (8) ہوسکتا ہے، ہاں، مگر جن کے ساتھ مسجد حرام کے قریب تمہارا معاہدہ ہوا، تھا، اگر وہ تمہارے ساتھ عہد پر قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ اس پر قائم رہو، بے شک اللہ تقوی والوں کو پسند کرتا ہے
آیت (٧) سے لے کر (١٣) تک یہ حقیقت واضح کی ہے کہ دشمنوں کی پے در پے عہد شکنیوں اور ظلم و عداوت کی انتہا نے کس طرح اس اعلان جنگ کو ناگزیر کردیا تھا، فرمایا جن لوگوں نے بار بار عہد کیے اور بار بار خلاف ورزی کی اور پھر صلح حدیبیہ کا آخری عہد بھی اس ظالمانہ طریقہ پر پامال کیا اب ان کا عہد کیونکر عہد سمجھا جاسکتا ہے؟ ہاں جو فریق اس عہد پر قائم رہے تو یقینا ان کا عہد اپنی جگہ قائم ہے۔ اسلام کسی حال میں بھی بدعہدی جائز نہیں رکھ سکتا۔ فرمایا ان کی دلی عداوت کا یہ حال ہے کہ اگر اب بھی قابو پاجائیں تو ایک مومن کو زندہ نہ چھوڑیں، اگر ایسے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ نہ کیا جاتا تو نتیجہ یہ نکلتا کہ مسلمان دائمی خطرہ میں چھوڑ دیے جاتے۔ آیت (١٣) میں فرمایا جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی ابتدا کس نے کی؟ کس نے مظلوموں کو جلا وطنی پر مجبور کیا اور کون فوج لے کر ان پر حملہ آور ہوا؟ یہی لوگ تھے جو یہ سب کچھ کرتے رہے، اب اگر ہم ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں تو اس کی ذمہ داری انہی پر ہے۔ پھر غور کرو قرآن ہر جگہ اس جنگ کا مقصد کیا قرار دیتا ہے؟ جس کی اس نے اجازت دی تھی۔ آیت (١٢) میں فرمایا لعلھم ینتھون۔ تاکہ ظلم و بدعہدی سے باز آجائیں، اسی طرح سورۃ انفال کی آیت (٥٧) میں گزر چکا ہے لعلھم یذکرون تاکہ عبرت پذیر ہوں۔ یعنی یہ دفاعی جنگ بھی انتقام کے خیال سے یا دنیوی انتفاع و تغلب کے لیے نہیں ہے بلکہ محض اس لیے ہے کہ ارباب ظلم و تشدد اپنی بدکرداریوں سے باز آجائیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ناگزیر حالت سے زیادہ ایک لمحہ کے لیے قرآن نے جنگ کا قیام جائز نہیں رکھا اور پے در پے عہد شکنیوں اور سخت سے سخت مظالم کے بعد بھی دشمنوں پر دروازہ کبھی بند نہیں کیا۔