يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اے میرے نبی ! آپ مومنوں کو کافروں سے جنگ پر اکسائیے (55) اگر تمہارے بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے، اور اگر تمہارے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے، اس لییے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں (جذبہ جہاد کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے ہیں)
آیت (٦٥) اور (٦٦) میں دو مختلف حالتوں کے لیے عزیمت و رخصت کی دو مختلف صورتیں فرمائی ہیں۔ ایمان کا خاصہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ایک مسلمان دس دشمنوں پر بھاری رہے لیکن چونکہ ابھی تمہاری حالت بڑٰ ہی کمزوری کی حالت ہے، اس لیے کم ازکم اپنے سے دوگنی تعداد کا مقابلہ کرو، قوانین حق کا فیصلہ یہ ہے کہ غالب رہو گے۔ آیت (٦٥) میں غلبہ کی توجیہ یہ کی کہ بانھم قوم لا یفقھون۔ تمہارے دشمنوں کا گروہ ایسا گروہ ہے جس میں سمجھ بوجھ نہیں یعنی محض اندھے پن کا تعصب ہے جس کے جوش میں لڑ رہے ہیں۔ علم و بصیرت، معاملہ فہمی اور صلاحیت کار سے محروم ہیں اور چونکہ محروم ہیں اس لیے کتنی ہی بڑی تعداد میں ہوں اصحاب دانش و بصیرت کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتے۔ آج کل کے مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ اب اصحاب دانش و بصیرت وہ ہیں یا دنیا کی دوسری قومیں؟ اگر حالات حالات منقلب ہوگئے ہیں تو نتائج بھی کیوں منقلب نہ ہوجائیں؟ جنگ بدر میں جب دشمن قید ہوئے تو سوال پیدا ہوا اس بارے میں کیا کرنا چاہیے؟ چونکہ اس وقت مسلمان بڑی ہی تنگی و افلاس کی حالت میں تھے اس لیے عام رئے یہ تھی کہ قیدیوں کے لیے فدیہ مانگا جائے اور جب تک فدیہ وصول نہ ہو قیدی رہا نہ کیے جائیں۔ بعض صحابہ کی رائے وئی کہ انہیں قتل کردینا چاہیے۔ حضرت عمر بھی انہی میں تھے لیکن آنحضرت نے عام رائے کے مطابق فیصلہ فرمایا اور قیدیوں کے لیے فدیہ طلب کیا گیا اور جن قیدیوں کے لیے فدیہ نہیں ملا وہ روک لیے گئے۔ اس پر آیت (٦٧) نازل ہوئی۔ فرمایا دنیا میں نبی صلی (علیہ السلام) اس لیے نہیں آتے کہ ان کے پیرو دشمنوں کو قید رکھ کر فدیے کا روپیہ لیں بلکہ مقصود اصلی دعوت حق کا اعلان ہوتا ہے۔ پس نبی (علیہ السلام) کو سزاوار نہیں کہ جب تک اس کی دعوت ملک میں ظاہر و غالب نہ ہوجائے اسیران جنگ کو فدیہ کے لیے روکے رکھے، تمہاری نظر متاع دنیا پر ہے اور خدا نے تمہارے لیے آخرت کا انعام پسند کیا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد آیت (٧٠) نے معاملہ بالکل صاف کردیا، فرمایا جو قیدی فدیے کے لیے روک لیے گئے ہیں ان سے کہہ دو اگر تمہاری نیتیں صاف ہیں تو تمہارے لیے کوئی کھٹکا نہیں۔ جہاں تک اسیران جنگ کا تعلق ہے سورۃ محمد کی آیت (٤) نے آخری حکم دے دیا ہے فاما منا بعد اما فداء یعنی آئندہ یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دیا کرو، یا فدیہ لے کر جیسی مصلحت وقت ہو۔