ذَٰلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ
یہ (نصرت و غنیمت اور اجر و ثواب تو تمہیں ملا ہی) اور دوسرا مقصود یہ تھا کہ اللہ یقیناً کافروں کی چال (12) کو کمزور کرنے والا تھا
آیت (١٨) میں فرمایا : میدان جنگ کا فیصلہ تو ہوچکا، اب رہیں دشمنوں کی خفیہ تدبیریں تو وہ بھی سست پڑجائیں گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا، بدر کے بعد قریش مکہ کی کوئی تدبیر بھی ان کے لیے سود مند نہ ہوئی۔ کفار مکہ کہا کرتے تھے، اگر خدا تمہیں فتح مند کرنے والا ہے تو وہ فتح مندی کہاں ہے؟ خود جنگ بدر میں ابو جہل نے دعا مانگی تھی، خدایا دونوں میں سے جو دین تجھے پسند ہو اس کے ماننے والوں کو فتح مند کر، پس آیت (١٩) میں فرمایا : اگر اسی بات کے طلبگار تھے تو وہ ظہور میں آگئی اور اہل حق کو خدا نے فتح مند کردیا۔ نیز فرمایا اگر باز آجاؤ یعنی اگر اب بھی ظلم و سرکشی سے باز آجاؤ اور محض اختلاف دین کی بنا پر مسلمانوں کی ہلاکت کے درپے نہ ہو تو تمہارے لیے سراسر بہتری ہے۔ اس سے اندازہ کرو کہ کس طرح پیغمبر اسلام نے آخر تک جنگ و خونریزی سے بچنا چاہا اور فتح و کامرانی کے بعد بھی امن و اصلح کی دعوت دیتے رہے؟ اگر جنگ بدر کے بعد قریش مکہ ظلم و عداوت سے باز آجاتے تو ظاہر ہے بعد کی جنگوں کی نوبت ہرگز نہ آتی۔ اگرچہ نتیجہ وہی نکلتا، یعنی اسلام کی دعوت تمام جزیرہ عرب کو فتح کرلیتی۔