سورة الاعراف - آیت 194

إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو، وہ تم ہی جیسے اللہ کے بندے ہیں، تو تم انہیں پکارو، اور اگر تم سچے ہو تو انہیں تمہاری پکار کا جواب دینا چاہئے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ روحانی اعتقاد کے ساتھ ایک بالا تر ہستی کو پکارنا بندگی و نیاز کا ایک ایسا فعل ہے جو صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر کسی دوسری ہستی کے لیے کیا گیا تو یہ شرک ہوگا۔ یہی مقام ہے جہاں پیروان مذاہب نے ٹھوکر کھائی، وہ توحید ربوبیت میں نہیں کھوئے گئے، کیونکہ خالق و رب خدا ہی کو مانتے تھے، وہ توحید الوہیت میں گمراہ ہوگئے۔ یعنی اپنی دعاؤں اور منتوں مرادوں کے لیے بہت سے آستانے بنا لیے جسے قرآن الہ بنا لینے سے تعبیر کرتا ہے۔ سورت کا مرکز موعظت یہ تھا کہ اوائل اسلام کی غربت و بے چارگی میں پیروان دعوت کو تسکین دی جائے اور یہ حقیقت ان کے دلوں پر نقش کردی جائے کہ ظاہری اسباب کتنے ہی مخالف دکھائی دیتے ہوں بالآخر دعوت حق کی فتح مندی یقینی ہے، مخالف جماعتیں جس قدر اپنی سرگرمی میں بڑھتی جائیں گی اتنا ہی زیادہ ان کی تباہی کا وقت قریب آتا جائے گا۔ اب اس سورت کے تمام مواعظ پر دوبارہ نظر ڈالو اور دیکھ کس طرح سورت کی ابتدائی ہوئی، کس طرح سلسلہ بیان کھلتا اور پھیلتا گیا اور کس طرح دین حق کے تمام مہمات و مقاصد اس پھیلاؤ میں سمٹ آئے پھر کس طرح مرکز برابر ایک ہی رہا اور اب اسی پر خاتمہ ہورہا ہے ،۔ چنانچہ یہاں واضح فرمایا کہ : (ا) مشرکین مکہ دعوت حق کے خلاف کتنی ہی تدبیریں کریں کامیاب ہونے والی نہیں، کیونکہ اس مقابلہ میں حق تمہارے ساتھ ہے ان کے ساتھ نہیں۔ (ب) جو لوگ تعصب اور ضد میں کھوئے گئے وہ کبھی ماننے والے نہیں۔ (ج) تمہارا طریق کار یہ ہونا چاہیے کہ ہر حال میں نرمی اور درگزر کا شیوہ ملحوظ رکھو اور نیکی کی دعوت دیتے رہو مگر جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو۔ (د) اگر مخالفوں کے عناد، ناموافق حالات کے ہجوم اور اپنی بے چارگی و بے نوائی کے تصور سے مایوس کن خیالات پیدا ہونے لگیں تو سمجھ جاؤ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور اللہ کی یاد سے اس کا علاج کرو۔ وساوس و خطرات سب کو گزرتے ہیں مگر جو لوگ متقی ہیں ان کا ضمیر ایسا بیدار ہوجاتا ہے کہ جونہی کوئی وسوسہ گزرا معا چونک اٹھے اور راستی و نیکی کی روشنی نمودار ہوگئی۔ مگر جو لوگ ایمان و تقوی سے محروم ہیں وہ اپنے آپ کو وساوس کے ہاتھوں چھوڑ دیتے ہیں۔ جدھر لے جائیں اور جہاں تک لے جائیں کھنچے چلے جائیں گے۔ (ہ) کلام الہی کا جی لگا کر سننا وساوس و خطرات کے اثرات دور کردیتا ہے۔