وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور (اے میرے رب !) تو ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے، اور آخرت میں بھی ہم نے تیری طرف رجوع کرلیا، اللہ نے کہا، میں اپنے عذاب (88) میں جسے چاہتا ہوں مبتلا کرتا ہوں، اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقوی (89) کی راہ اختیار کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں
(ح) آیت (١٥٦) میں فرمایا کہ کائنات ہستی میں اصل و عام حقیقت رحمت، ہے اور تعذیب و عقوبت نہیں ہے مگر خاص خاص حالتون کے لیے، پس یہاں اصل قانون رحمت ہوا جس کے احاطہ سے کوئی گوشہ باہر نہیں ہے۔ یہ مقام معارف قرآنی کی مہمات میں سے ہے اور ان تمام گمراہیوں کا ازالہ کردیتا ہے جو خدا کی صفات و افعال کے بارے میں پھیل گئی تھیں َ جس حالت کو انسان کے لیے عذاب قرار دیا اسے خاص حالتوں سے مخصوص بتلایا گیا مگر رحمت کو کہا کہ عام ہے، کیونکہ رحمت اس کی قدیم اور ازلی صفت ہے۔ عذاب دینا صفت نہیں، اور عذاب بھی اس لیے ہے کہ ہماری ٹھہرائی ہوئی اضافتوں اور نسبتوں کے لحاظ سے ایسا ہی ہونا تھا۔ ورنہ فی الحقیقت اس نے جو کچھ بھی کیا ہے رحمت ہی رحمت ہے۔ سورۃ انعام میں گزر چکا ہے : کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ (ط) آیت (١٥٦) میں اس فرمان کا ذکر کیا تھا کہ جو لوگ خدا کی نشانیوں پر ایمان رکھیں گے وہ رحمت کے سزاوار ہوں گے اس لیے بعد کی آیات میں سلسلہ بیان مخاطبین کی طرف متوجہ ہوگیا ہے یعنی اب کہ پیغمبر اسلام کی موعودہ دعوت نمودار ہوگئی، اہل کتاب کے لیے رحمت الہی کی بخشائشوں کا دروازہ کھل گیا ہے۔ جو لوگ سچائی کی نشانیوں پر ایمان لائیں گے، فرمان الہی کے مطابق کامران و سعادت پائیں گے۔ (ی) پیغمبر اسلام کی دعوت کی تین خصوصیتیں یہاں بیان کیں۔ (١) نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے۔ (٢) پسندیدہ چیزوں کا استعمال جائز ٹھہراتا ہے، ناپسند چیزوں کے استعمال سے روکتا ہے، قرآن نے اس معنی میں طیبات اور خبائث کا لفظ اختیار کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزیں اچھی ہیں انہیں جائز کیا ہے، جو بری ہیں یعنی مضر ہیں ان سے روک دیا ہے۔ (٣) جو بوجھ اہل کتاب کے سروں پر پڑگیا تھا اور جن پھندوں میں گرفتار ہوگئے تھے ان سے نجات دلاتا ہے۔ یہ بوجھ کیا تھا اور یہ پھندے کون سے تھے جن سے قرآن نے رہائی دلائی، قرآن نے دوسرے مقامات میں اسے واضح کردیا ہے۔ مذہبی احکام کی بے جا سختیاں، مذہبی زندگی کی ناقابل عمل پابندیاں، ناقابل فہم عقیدوں کا بوجھ، وہم پرستیوں کا انبار، عالموں اور فقیہوں کی تقلید کی بیڑیاں، پیشواؤں کے تعبد کی زنجیریں۔ یہ بوجھ رکاوٹیں جنہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے دل و دماغ مقید کردیئے تھے، پیغمبر اسلام کی دعوت نے ان سب سے نجات دلائی، اس نے سچائی کی ایسی سہل و آسان راہ دکھا دی جس میں عقل کے لیے کوئی بوجھ نہیں عمل کے لیے کوئی سختی نہیں۔ حنیفیۃ السمحۃ لیلھا کنھارھا۔ افسوس جن پھندوں سے قرآن نے اہل کتاب کو نجات دلائی تھی مسلمانوں نے وہی پھندے پھر اپنے گلوں میں ڈال لیے۔ (ک) دعوت عامہ کا اعلان۔ یعنی پیغمبر اسلام کی دعوت کسی خاص قوم اور ملک کے لیے نہیں ہے، تمام نوع انسانی کے لیے ہے۔ یہ آیت جوامع آیات میں سے ہے جس نے دعوت اسلام کی پوری حقیقت واضح کردی۔ (١) یہ دعوت یکساں طور پر تمام نوع انسانی کے لیے ہے۔ (٢) یہ ایک خدا کے آگے سب کے سروں کو جھکا ہوا دیکھنا چاہتی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (٣) ایمان باللہ وکلماتہ اس کا شعار ہے۔ یعنی خدا اور اس کے تمام کلمات وحی پر ایمان۔ فرمایا : خدا نے مجھے تم سب کی طرف بھیجا ہے۔ وہ خدا کہ آسمان و زمین کی ساری پادشاہت اسی کے لیے ہے۔ یعنی جب تمام کائنات ہستی میں ایک ہی خدا کی فرمانروائی ہے تو ضروری ہوا کہ اس کا پیغام بھی ایک ہی ہو اور سب کے لیے ہو۔