وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ
اور ہم نے تختیوں (76) میں ہر چیز کے بارے میں ضروری تعلیم و نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی، تو آپ اسے مضبوطی کے ساتھ تھام لیجئے، اور اپنی قوم کو ان اچھی باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیجئے، میں عنقریب آپ کو فسق کرنے والوں کا انجام (77) دکھاؤں گا
(ج) آیت (١٤٥) کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے جن جن حکموں کی ضرورت تھی، وہ سب ان تختیوں کے احکام میں موجود تھے۔ تفصیلا لکل شیئ یعنی تمام باتیں الگ الگ کر کے بیان کردی تھیں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا جہان کی ہر بات تشریح و تطویل کے ساتھ لکھ دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ قرآن تفصیل کا لفظ اس مصلحہ معنی میں نہیں بولتا جو فن بیان و معانی میں بعد کو ٹھہرائے گئے اور جو اجمال کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔ اگر امام رازی کی نظر اس حقیقت پر ہوتی تو وہ اس بے کار کی زحمت سے بچ جاتے جو سورۃ فاتحۃ کی تفسیر لکھنے میں انہوں نے برداشت کی۔ چونکہ یہ تختیاں وحی الہی سے کندہ کی گئی تھیں، اس لیے خدا نے ان کی کتابت اپنی طرف منسوب کی اور کتب سماوی کی نسبت قرآن کا یہ عام اسلوب بیان ہے۔ تورات میں ہے کہ یہ دو تختیاں تھیں اور دونوں طرف کندہ کی ہوئی تھیں۔ (خروج : ١٤: ٣٢) (د) قرآن کا عام اسلوب بیان یہ ہے کہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے قوانین و اسباب سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دیتا ہے،۔ مثلا اس کا ایک قانون یہ ہے کہ جو لوگ سمجھ بوجھ سے کام لینے کی جگہ اپنے بڑے بوڑھوں کی اندھی تقلید کرنے لگتے ہیں اور اسی پر اڑے رہتے ہیں رفتہ رفتہ ان کی عقلیں ماری جاتی ہیں اور سمجھ بالکل الٹی ہوجاتی ہے۔ کتنی ہی صاف بات کہی جائے، ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی، کتنی ہی ان کی بھلائی چاہو وہ اور زیادہ مخالفت کریں گے۔ قرآن اس حالت کو یوں تعبیر کرے گا کہ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی پس وہ سمجھتے نہیں۔ یعنی یہ صورت حال خدا کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب کبھی کوئی یہ چال چلتا ہے خدا کا مقررہ قانون موثر ہو کر اسے اس حالت میں پہنچا دیتا ہے۔