ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُوا بِهَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
پھر ہم نے ان کے بعد موسیٰ کو اپنی نشانیاں (56) دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا، تو انہوں نے ان نشانیوں کا انکار کردیا، پس آپ دیکھ لیجئے کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوتا ہے
(١) حضرت موسیٰ کی دعوت کا تذکرہ اور اس حقیقت کی تلقین کہ جس طرح پیغبروں کی تنذیر ہمیشہ وقوع میں آئی اسی طرح تبشیر نے بھی اپنی برکتیں دکھلائیں، نیز بنی اسرائیل کے ایام و وقائع جن میں مخاطبین قرآن کے لیے مواعظ و عبر تھے۔ (ا) حضرت موسیٰ کا فرعون سے مطالبہ کہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہا کردے اور مصر سے نکل جانے دے، بنی اسرائیل حضرت یوسف کے زمانہ میں مصر گئے تھے اور عزت کے ساتھ بسائے گئے تھے، پھر رفتہ رفتہ مصریوں نے انہیں اپنا غلام بنا لیا، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ کا ظہور ہوا۔ (ب) جب ایک افتادہ جماعت اٹھتی ہے اور اپنی حالت سنوارنا چاہتی ہے تو مستبد قومیں اسے بغاوت سے تعبیر کرتی ہیں۔ حضرت موسیٰ کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکل جانے دیا جائے، لیکن امرائے مصر نے کہا : یہ چاہتا ہے تم مصریوں کو تمہارے ملک سے نکال باہر کرے۔ اور سورۃ یونس میں ہے کہ انہوں نے موسیٰ سے کہا تم چاہتے ہو ملک کی سرداری تمہیں مل جائے۔ (ج) ارکان حکومت کا مشہور اور حضرت موسیٰ کے مقابلے کے لیے جادوگروں کی طلبی۔ سورۃ طہ میں مزید تفصیل ہے (دیکھو آیت ٥٨) (د) مصر کے جادوگروں کا اجتماع اور حضرت موسیٰ سے مقابلہ۔ جادوگروں کی نسبت فرمایا لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دی تھیں یعنی جادو کے شعبدوں کی کوئی حقیقت نہیں، محض نگاہ کا دھوکا تھا۔ چنانچہ دوسری جگہ اسے تخیل کی تاثیر سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (٦٦: ٢٠) نیز آیت (١١٧) میں فرمایا ما یافکون یعنی ان کی نمائش جھوٹی تھی۔ جادو کا اعتقاد دنیا کی قدیم اور عالمگیر گمراہیوں میں سے ہے اور نوع انسانی کے لیے بڑی مصیبتوں کا باعث ہوچکا ہے، قرآن نے آج سے تیرہ سو برس پہلے اس کے بے اصل ہونے کا اعلان کیا لیکن افسوس ہے کہ دنیا متنبہ نہ ہوئی اور ازمنہ وسطی کے مسیح جہل و قساوت نے ہزاروں بے گناہ انسانوں کو زندہ جلایا۔