وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (48) کو بھیجا، اس نے کہا، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس کھلی دلیل آچکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے بطور نشانی بھیجی ہے، تم لوگ اسے چھوڑ دو اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے، اور کوئی تکلیف نہ پہنچا، ورنہ تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا
(١) قوم ثمود عرب کے اس حصے میں آباد تھی جو حجاز اور شام کے درمیان وادی القری تک چلا گیا ہے۔ اسی مقام کو دوسری جگہ الحجر سے بھی تعبیر کیا ہے۔ پالتو جانوروں کو خدا کے نام پر چھوڑ دینے کا طریقہ بہت قدیمی ہے، بابل اور ہندوستان میں اس کا سرغ ہزاروں برس پیشتر تک ملتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کے لوگ بھی اپنے بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت صالح نے خدا کے نام پر ایک اونٹنی چھوڑ دی اور اسی معاملہ میں قوم کے لیے اتباع حق کی آزمائش ہوگئی۔ اگر وہ اونٹنی کو ضرر نہ پہنچاتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ ان کے دل ہدایت کے آگے جھک گئے ہیں مگر ان کے اندر خدا پرستی کے خلاف ایسی ضد اور شرارت پیدا ہوگئی تھی کہ اتنی سی بات بھی نہ مان سکے اور اونٹنی کو زخمی کر کے ہلاک کر ڈالا۔ ملک میں سرکشی کرتے ہوئے خرابی نہ پھیلاؤ، اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ قتل و غارت، لوٹ مار، شر و فساد میں چھوٹ ہوگئے تھے اور امن و عدالت کا کوئی احساس باقی نہیں رہا تھا۔