يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
اے آدم کی اولاد ! اگر تمہارے پاس تم ہی میں سے میرے رسول آئیں (25) جو تمہیں میری آیتیں پڑھ کر سنائیں، تو جو کوئی تقوی کی راہ اختیار کرے گا اور عمل صالح کرے گا اسے نہ مستقبل کا کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ ماضی کا کوئی غم
رسولوں کی آمد : (ف1) بنی آدم سے مراد آدم (علیہ السلام) کی اولین اولاد ہے ، انہیں ابتدائی تعلیمات کے بعد کہا گیا ہے ، کہ تمہارے پاس اگر رسول اور پیغمبر آئیں تو ماننے میں تامل نہ کرنا اس لئے کہ اللہ کے نزدیک تقوی واصلاح کا معیار یہی ہے کہ ہر صداقت کو قبول کیا جائے ۔ حضور (ﷺ) کے بعد یہ سلسلہ ختم ہے ، آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور (ﷺ) تک نبوت جاری رہی ، اب بسوائے خاتم النبین ، نبوت کے تمام دروازے مسدود ہیں ، کیونکہ دین کامل ہوگیا ، اللہ کی نعمتیں پوری ہو چکیں ، اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی ۔ اس آیت سے بقائے نبوت کا ثبوت بوجوہ غلط ہے ۔ 1۔ بنی آدم سے تعبیر آدم (علیہ السلام) کی اولین اولاد ہے ۔ 2۔ ما حرف شرط ہے جس سے وقوع ودوام مقصود نہیں ہو سکتا ۔ 3۔ رسل کا لفظ عام ہے غیر انبیاء بھی اس میں داخل ہیں ۔ 4۔ ختم نبوت کی تصریحات موجود ہیں ۔ 5۔ اجماع امت جزئیات نبوت کا مخالف ہے ۔